ملک ایک،قانون ایک تو پیمانے دو کیوں؟

0

ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

جب کسی ملک میں جمہوریت کے نام پر آمریت کو فروغ دیا جاتا ہے،حکومت جمہوریت کی گدی پر بیٹھ کر کسی خاص ایجنڈے پر کام کرنے لگتی ہے تو پھر ملک میں لاقانونیت شروع ہوجاتی ہے،اکثریت اور اقلیت کا کھیل شروع ہوجاتا ہے،پھر قانون کی حکمرانی نہیں رہ جاتی،بلکہ قانون کا استعمال صرف کمزوروں،غریبوں اور ان لوگوں کے لیے کیا جاتا ہے جن کو ہدف بتایا جاتا ہے،این ایس اے اور یو اے پی اے کے استعمال کا ڈیٹا دیکھ لیجیے واضح ہوجائے گا کہ یہ قوانین قومی سلامتی اور ملک کے مفاد کے لیے بنائے گئے ہیں یا کسی مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے کے لیے۔

ایک امریکی مفکر نے کہا تھا کہ کووڈ-19 سے نیشنلسٹ حکمرانوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا، ان کی طاقت میں اضافہ ہوگا جو اب نظر آرہا ہے، بہر حال ایک ہی ملک میں ایک ہی قانون کے دو طریقہ استعمال ہوسکتے ہیں تو پھر جمہوریت کا نعرہ اور ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کی باتوں پر ہمارے میڈیا کو بڑا سا سوالیہ نشان لگا دینا چاہیے، لیکن وہ لگائے گا کیسے جبکہ وہ خود اقتدار کے سامنے سر تسلیم خم کر چکا ہے۔

گزشتہ سال جب کورونا کی وبا پھیلی تب سے لے کر آج تک مرکزی اور پھر بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کا رویہ انتہائی متعصبانہ،جانبدارانہ اور سچ پوچھئے تو ایسی خطرناک وبا سے تحفظ کے لیے بہت ناکافی رہا ہے،گزشتہ روز اترپردیش کی حکومت کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے آئینہ دکھایا ہے۔ مارچ 2020میں حکومت نے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی پلاننگ کے لاک ڈاؤن کردیا جس کے اثرات سے ملک آج بھی نہیں نکل سکا، بہرحال اس وقت ہندوستان کے ویزے پر آئے کچھ مسلمان مرکز نظام الدین میں تھے،حکومت اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی غلطیوں کو مسلمانوں کے سر ڈال کر ملک بھر میں اسلاموفوبیا کی فضا بنائی،کووڈ کی عالمی وبا پہلے سے چل رہی تھی، حکومت کو ویزا نہیں دینا چاہیے تھا، باہر سے آنے والی فلائٹ بند کردینا چاہیے تھا،ایئرپورٹ پر اسکریننگ ہونی چاہیے تھی،کچھ نہیں ہوا کیونکہ حکومت تیار نہیں تھی،وبا پھیلی تو حکومت کے ہوش اڑ گئے،اسے بیماری اور وبا کو اپنا تخت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنا تھا، چنانچہ اسے مرکز کو مہرا بنانے کا موقع ہاتھ آگیا،بی جے پی حامی میڈیا نے تو معاملہ کو کورونا جہاد اور تبلیغی بم تک پہنچا دیا،ملک بھر میں اس شدت سے نفرت عام کی گئی کہ سیدھے سادے عام ہندو بھی مسلمانوں کو دیکھ کر بھاگنے لگے،جب معاملہ حد سے گزرا تو پھر لوگوں نے آواز اٹھائی،پھر اسلاموفوبیا اِن انڈیا کے ہیش ٹیگ نے دنیا بھر میں ٹرینڈ کیا اور ملک کے وزیراعظم کو بیان دے کر اپنی صفائی دینی پڑی،لیکن بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ ملک میں پہلے سے موجود ایپیڈیمک ایکٹ میں مرکز نے تبدیلی کی،ریاستی اداروں نے اس میں مزید ترمیمات کیں،تبلیغی جماعت کے مرکز میں لاک ڈاؤن کے سبب پھنسے لوگوں پر خوب طبیعت سے چارجز لگائے گئے، غیرملکیوں کو جیلوں میں رکھا گیا،خاص بات یہ تھی کہ جن پر کورونا پھیلانے کا الزام تھا وہ سب نگیٹو نکلے اور سب کو عدالتوں نے بری کیا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اپریل2020 میں بی جے پی حامی میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر کورونا جہاد کا نعرہ لگا رہی تھی، اس وقت تک ملک میں300 سے550 کے آس پاس کیسز ہوتے تھے، مرکز کے اجتماع میں کوئی 5000 لوگ شامل تھے جن میں سے ڈھائی ہزار لوگ لاک ڈاؤن کے سبب پھنس گئے تھے تو حکومت،اس کے وزیروں اور میڈیا میں بیٹھے اس کے بھونپوؤں نے نفرت کا بازار گرم کردیا تھا اور مسلمانوں کو سماج سے کاٹ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، آج ہم اپریل 2021 میں پہنچ گئے، کورونا کی دوسری لہر بہت شباب پر ہے،اس لہر میں وائرس پہلے سے زیادہ مہلک و مؤثر اور خطرناک ہے،ملک میں ایک دن میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کیس ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ ہندوستان برازیل سے بھی آگے نکل چکا ہے بلکہ دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ ملک بھر میں لاکھوں کیسز ایکٹیو ہیں،صرف بنگال میں50ہزار سے زیادہ کیسز ایکٹیو ہیں، لیکن پھر بھی الیکشن ہو رہے ہیں، ریلیاں ہو رہی ہیں، وزیر داخلہ اور وزیراعظم بڑی بڑی بھیڑ اکٹھا کر رہے ہیں، نہ کہیں ماسک نظر آتا ہے نہ سماجی فاصلہ، بنگال جیتنے کے جنون نے یا تو کورونا کے خطرے سے بنگال کو محفوظ کر دیا ہے اور یا پھر یہ ہوگا کہ الیکشن ختم ہونے کے بعد بنگال موت کے منہ میں چلا جائے گا۔ دوسری طرف رخ کیجیے تو ہریدوار کے کمبھ اشنان میں اطلاعات کے مطابق 40لاکھ افراد شریک ہوئے ہیں،ان میں شریک ہونے والوں پر کوئی اعتراض نہیں، اعتراض ان پر ہونا چاہیے جنہوں نے یہ بھیڑ اکٹھا ہونے دی،جو لوگ اپریل 2020میں کورونا بم، کورونا جہاد کہہ کہہ کر روز شام کی پریس کانفرنس میں الگ سے جماعت کے لوگوں کا نام لیتے تھے ،وہ اب کمبھ اشنان پر خاموش کیوں ہیں؟ ان چالیس لاکھ لوگوں کو آنے کی اجازت کس نے دی؟آج ملک میں ایک ایک دن میں ایک لاکھ 70ہزار کیس پائے جا رہے ہیں اور حکومت نے تمام قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے40لاکھ لوگوں کو جمع کیا،کیا ان سارے افراد کا ٹسٹ ہوچکا تھا؟ کیا ان سب کی اسکریننگ ہوئی تھی؟کیا ان میں کوئی پازیٹو نہ رہا ہوگا؟ کیا ملک سے کورونا ختم ہوگیا؟اگر نہیں تو کیا ان لوگوں سے نہیں پھیلے گا، اور پھیلے گا تو کتنی دور دور تک پھیلے گا۔ کیا بی جے پی، آر ایس ایس حامی میڈیا اس پر خاموش رہے گا یا اسے بھی کمبھ جہاد کہے گا، بعض باضمیر اور انصاف پسند صحافیوں نے کمبھ میلے کے بعد میڈیا پر سخت تنقیدیں کرتے ہوئے کہا کہ اسے مسلمانوں سے معافی مانگنا چاہیے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے ایک طرف ایک مذہب کے40لاکھ لوگوں کے جمع ہونے پر کوئی اعتراض نہیں اور دوسری طرف رمضان شروع ہوتے ہی کورونا روزہ دار بن کر مساجد میں داخل ہوگیا، مساجد میں نماز و تراویح پر پابندیاں لگ گئیں، عجیب قسم کا یہ وائرس ہے جب دن میں اکثریت جاگتی ہے، کام کاج میں مصروف رہتی ہے تو یہ سوتا ہے اور رات میں اکثریت سوتی ہے تو یہ وائرس حملہ آور ہوتا ہے، آخر نائٹ کرفیو کا مطلب کیا ہے؟ کمبھ میں 40لاکھ لوگ جمع ہوسکتے ہیں، بنگال آسام میں لاکھوں افراد سیاسی ریلیوں میں شریک ہو سکتے ہیں تو پھر مسجد میں نماز کیوں نہیں؟ کیا لاجک ہے۔ ماسک و سوشل فاصلہ ضروری ہوتو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر صرف 5یا50 کی بات سمجھ سے بالا تر ہے،5 اکٹھا ہوں یا 50 مرض متعدی ہے تو پھیلے گا، لہٰذا یاتو سب بند ہو یاکچھ بھی بند نہ ہو مگر قانون پر مکمل عمل ہو۔ لیکن قانون پر عمل ہو کیسے وہ تو غریب و کمزوروں کے لیے بنا ہے کہ عین اس وقت جب ملک میں کورونا سے شرح اموات میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے تب حکومت نے اعداد و شمار جاری کرنا بند کردیا ہے یا اعدادوشمار بتانے میں من مانی شروع ہوگئی ہے۔لکھنؤ اس وقت کورونا ہاٹ سپاٹ بنا ہوا ہے لیکن اسے مالیگاؤ ںکی طرح بدنام کیا جائے گا نہ الگ تھلگ۔ سچائی یہ ہے کہ کورونا سے تحفظ کرنے میں حکومت کی پالیسیاں بری طرح ناکام ہوئی ہیں اور اب اس نے آئندہ انتخابات کے پیش نظر صحیح اعداد و شمار بیان کرنا بھی بند کر دیا ہے۔ کورونا کی تباہ کاریوں میں اضافہ اور حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے وبا کو بھی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا، اگر اس نے صحیح پالیسیاں اپنائی ہوتیں،تعصب اور نفرت کو فروغ دینے کے بجائے قانون پر عمل کیا ہوتا اور سب کے لیے قانون کو یکساں طور پر نافذ کیا ہوتا تو آج صورت حال یہ نہ ہوتی۔
کورونا ایک وبائی مرض ہے، اس سے احتیاط لازمی ہے، ابتدائی صحیح بنیادی علاج ہی اگر مل جائے تو مرض بے قابو نہیں ہوتا۔ دراصل سراسیمگی پھیلائی گئی ہے، ایک عجب ہوّا کھڑا کیا گیا، پڑائیوٹ اسپتالوں اور کلینک کو بند کر دیا گیا اور پھر ملک بھر میں جو تانڈو ہوا ہے وہ اپنے آپ میں تاریخ کی ایک بدترین مثال ہے، اس کے پیچھے دراصل وہ ذہنیت ہے جسے ہر حال میں اپنا اقتدار عزیز ہے، خواہ مذہبی تعصب پھیلانے کے لیے کمبھ اشنان کے ذریعہ لاکھوں لوگوںکی موت کا انتظام کردیا جائے اور مسجدوں پر پابندی لگا کر مسلمانوں کو رمضان کی عبادت سے محروم کر دیا جائے، یہی وہ ذہنیت تھی جس نے شاہانہ انداز میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا، جس کے سبب لاکھوں افراد کورونا سے نہیں بھوک سے مرگئے تھے مگر اندھ بھکتوں اب بھی عقل نہیں آئی ہے۔ ایک امریکی مفکر نے کہا تھا کہ کووڈ-19 سے نیشنلسٹ حکمرانوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا، ان کی طاقت میں اضافہ ہوگا جو اب نظر آرہا ہے، بہر حال ایک ہی ملک میں ایک ہی قانون کے دو طریقہ استعمال ہوسکتے ہیں تو پھر جمہوریت کا نعرہ اور ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کی باتوں پر ہمارے میڈیا کو بڑا سا سوالیہ نشان لگا دینا چاہیے، لیکن وہ لگائے گا کیسے جبکہ وہ خود اقتدار کے سامنے سر تسلیم خم کر چکا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS