ریزرو بینک کے نرم رُخ سے نہیں بنے گی بات

بحران کے اس دور میں کم شرح سود کی پالیسی کی کامیابی سے متعلق کئی طرح کے سوال ہیں

0

بھرت جھنجھن والا

ریزرو بینک نے سود کی شرحوں کو ابھی نیچے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابھی بینک ریزرو بینک سے چار فیصد کی شرح سے لون لے سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے ڈپازٹ پانے کا بینک کا خرچ محض چار فیصد ہی آتا ہے۔ بینکوں نے فکس ڈپازٹ اور دیگر طریقوں سے بھی کچھ قرض لیا ہوتا ہے، جس پر انہیں زیادہ سود دینا پڑتا ہے۔ موجودہ وقت میں عام طور پر ڈپازٹ حاصل کرنے کا بینک کا خرچ 7فیصد پڑتا ہے۔ اس کے برعکس یہ تقریباً 9فیصد پر بازار میں لون دیتے ہیں۔ اگر ریزرو بینک سود کی شرح میں اضافہ کردیتا تو بینکوں کو دیے گئے قرض پر بھی زیادہ شرح سے سود وصول کرنا پڑتا، پھر اس وجہ سے صارفین اور سرمایہ کار سست ہوجاتے۔
شرح سود کا جواز
سود کی شرح کم رکھنے کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ بینک اگر سستے قرض دستیاب کرائیں گے تو صارفین قرض لے کر انویسٹ کریں گے۔ جیسے نوجوان لون لے کر بائک خریدیں گے اور صنعت کار لون لے کر انویسٹمنٹ کریں گے۔ اس سے معیشت چل پڑے گی۔ مان لیجیے، ایک بچہ گھی لے کر آئے اور دوسرا کھانا مانگے تو کچن کا پہیہ چل پڑتا ہے۔ ایک صارف نے قرض لے کر بائک بنانے کی فیکٹری لگائی تو ان دونوں کے اتفاق سے معیشت کا پہیہ چل پڑے گا۔

موجودہ وقت میں کووڈ کا بحران ٹلتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ٹیکہ کاری کے سبب شرح اموات کم ہوسکتی ہے، لیکن آنے والے وقت میں کووڈ کے اثر کا ٹھیک ٹھاک اندازہ آج بھی کرپانا مشکل ہے۔ اس لیے سستے سود کی پالیسی کے کامیاب ہونے میں شبہ پیدا ہوتا ہے۔ آثار یہی ہیں کہ موجودہ بحران کے وقت نہ تو صارفین کا رجحان قرض لینے کا ہوگا اور نہ ہی سرمایہ کاروں کا رجحان سرمایہ کاری کرنے کا۔

یہ خیال اس اعتماد پر انحصار کرتا ہے کہ کم سے کم سود کی شرحوں کے لالچ میں صارفین حقیقت میں قرض لے کر بائک خریدے گا اور اس مطالبہ کو پورا کرنے کے لیے صنعت کار قرض لے کر سرمایہ کاری کرے گا۔ ابھی تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں سود کی شرحیں کم ہوتی گئی ہیں۔ 2014میں ریزرو بینک 8فیصد پر بینکوں کو قرض دیتا تھا، پھر بھی صنعت کار قرض لے رہے تھے۔ آج ریزرو بینک 4فیصد پر لون دے رہا ہے، لیکن صنعت کار سست ہیں۔ سستے قرض سے ڈیمانڈ پیدا نہیں ہوئی ہے۔ جیسے بچہ گھی لے کر آیا لیکن گھر کے ممبر بیمار پڑے ہوں تو کچن نہیں چلتا۔ انہیں دال کے پانی کی ہی ضرورت رہتی ہے۔
حکومت کے سامنے دوسرا حل مالیاتی پالیسی کا ہے۔ حکومت اپنے پیداواری اخراجات، جیسے سرکاری اہلکاروں کو زیادہ تنخواہ دینا، یا نیا سنسدبھون(پارلیمنٹ ہاؤس ) بنانا وغیرہ میں کٹوتی کرکے عوام کو راست کیش ٹرانسفر کرکے بھی ڈیمانڈ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ منریگا کے تحت سڑکیں وغیرہ بنوا کر بھی ڈیمانڈ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مالیاتی پالیسی کا اثر ٹیکس اور خرچ کی کوالٹی پر انحصار کرتا ہے۔ ٹیکس اگر امپورٹ پر وصول کیا گیا تو امپورٹیڈ مال مہنگا ہوجائے گا اور گھریلو معیشت میں ڈیمانڈ پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس ٹیکس اگر گھریلو پیداوار پر وصول کیا گیا تو گھریلو مال مہنگا ہوجائے گا اور غیرملکی معیشت میں ڈیمانڈ پیدا ہوگی۔ مثال کے لیے حکومت نے ہندوستان ایروناٹکس سے لڑاکو طیارے خریدے تو ڈیمانڈ ملک میں بنے گی اور غیرممالک سے خریدے تو غیرملکی معیشت میں ڈیمانڈ پیدا ہوگی۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے آپ نے باہر سے پیزا منگوایا تو ڈیمانڈ اپنے کچن میں نہیں ، بلکہ باہر ہوگی۔
کم سوداور زیادہ خرچ دونوں ہی طریقوں سے ڈیمانڈ اور سرمایہ کاری کا سرکل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن دونوں میں فرق ہے۔ سستے قرض کا فائدہ فوراً ملتا ہے اور اس کا نقصان طویل مدت میں سامنے آتا ہے۔ جیسے صارفین قرض لے کر بائک خریدتا ہے تو بائک کا فائدہ اسے فوراً ملتا ہے، جبکہ قرض کا بوجھ اسے لمبے وقت تک اٹھانا ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ریزرو بینک سود کی شرحوں کو کم کرتا ہے اور حکومت یا صارفین قرض لیتے ہیں تو فائدہ فوراً ملتا ہے، لیکن قرض کا بوجھ مستقبل میں پڑتا ہے۔ مانیٹری پالیسی میں ہم حال میں فائدہ کے لیے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگاتے ہیں۔
مالیاتی پالیسی کا اثر اس کے ٹھیک برعکس ہوتا ہے۔ جیسے اگر حکومت حال میں اپنے غیرپیداواری اخراجات (Unproductive expenses) کو کم کرے یا امپورٹیڈ پٹرول پر ٹیکس میں اضافہ کرے تو حکومت اور عوام کو فوری نقصان ہوگا۔ لیکن اس رقم کا استعمال کرکے جو سڑکیں بنائی جائیں گی، ان کا فائدہ کچھ وقت بعد ملے گا۔ ماضی میں ہماری حکومتوں نے ٹیکس لگاکر آئی آئی ٹی کا قیام کیا تو ٹیکس کا بوجھ فوراً پڑا، لیکن آئی آئی ٹی میں پڑھے ہوئے انجینئروں کا فائدہ ملک کو اگلی کئی دہائیوں میں ملا۔ مالیاتی پالیسی میں ہم اپنے مستقبل کے لیے حال میں قربانی دیتے ہیں۔
موجودہ وقت میں کووڈ کا بحران ٹلتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ٹیکہ کاری کے سبب شرح اموات کم ہوسکتی ہے، لیکن آنے والے وقت میں کووڈ کے اثر کا ٹھیک ٹھاک اندازہ آج بھی کرپانا مشکل ہے۔ اس لیے سستے سود کی پالیسی کے کامیاب ہونے میں شبہ پیدا ہوتا ہے۔ آثار یہی ہیں کہ موجودہ بحران کے وقت نہ تو صارفین کا رجحان قرض لینے کا ہوگا اور نہ ہی سرمایہ کاروں کا رجحان سرمایہ کاری کرنے کا۔ موجودہ مانیٹری پالیسی ایسی ہے جیسے سوکھے کے وقت کسان سے یہ امید کرنا کہ وہ سستا قرض لے کر ٹریکٹر خریدے گا۔ بتاتے چلیں کہ جاپان جیسے ممالک میں بینکوں سے صفر شرح پر بھی صنعت کار قرض نہیں لیتے ہیں، کیوں کہ بازار میں ڈیمانڈ نہیں ہے۔
مستقبل کا سوال
حکومت کو اس وقت سرکاری کھپت کم کرنی چاہیے۔ سرکاری اہلکاروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کرنی چاہیے، امپورٹیڈ پٹرول پر اور زیادہ ٹیکس لگانا چاہیے اور اس رقم کا استعمال منریگا جیسی اسکیموں میں یا عوام کو راست کیس ٹرانسفر کرنے میں کرنا چاہیے۔ جس سے بازار میں ڈیمانڈ پیدا ہو اور صنعت کار مہنگی شرح سود پر بھی قرض لے کر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہوں۔ نوکری چھوٹ جانے پر کھپت میں اور زیادہ کٹوتی کرکے دکان لگا لی جائے تو آگے زندگی چلتی ہے۔ قرض لے کر کتنے دن زندگی چلے گی؟ بحران کے اس وقت میں حالیہ فائدہ کے لیے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے بجائے موجودہ بحران کو برداشت کرکے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(بشکریہ: نوبھارت ٹائمس)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS