سب کچھ سنگین خطرے میں ہے!

0

جمہوری کساد بازاری کے شکار ہندوستان میں جون 1975سے مارچ1977تک کا عرصہ ایمرجنسی جمہوری زوال کی تاریخ کا انمٹ نقش ضرور ہے لیکن بعد کے دورانیہ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے بھرپور مواقع ملے۔ فوج پر سویلین حکمرانی کے استحکام کے ساتھ ساتھ کئی دہائیوں کے متحرک کثیر الجماعتی مقابلہ، انتخابی کمیشن کی آزادی، انتخابی قوانین اور ضوابط کو مضبوط بنانے نیز خواتین اور دیگر سماجی گروہوں کی بڑھتی ہوئی شرکت کے ذریعہ جمہوریت ثمر آور بھی ہوئی۔یوروپ، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک ہندوستان کے جمہوری نظام اور صحت مند جمہوریت کو بہ نظر استحسان دیکھنے اور مثالیں دینے لگے۔ عالمی اداروں کی درجہ بندی میں ہندوستان کی جمہوریت کو مستحسن مقام اور رتبہ بلند ملا۔ مگر 2014 میں نریندر مودی کے وزیراعظم منتخب ہونے کے ساتھ شروع ہونے والا جمہوریت کا عصری زوال بہت تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی نے2014میں کانگریس مکت بھارت کا جو نعرہ بلند کیا، اسے دھیرے دھیرے اپوزیشن مکت بھارت کی عملی شکل میں بدل ڈالا ہے۔ صورتحال اتنی نازک اور ابتر ہوگئی ہے کہ اس کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے۔ جمہوریت کی یہ موت کسی ڈرامائی بغاوت یا حزب اختلاف کے قائدین کی آدھی رات کی گرفتاری کے ذریعہ نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر حزب اختلاف کو قانونی طور پر ختم کرنے کی مذموم کوشش سے ہورہی ہے اور اس کیلئے نظریات اور سیاسی مقابلہ آرائی کا جبری خاتمہ کیاجارہاہے۔
سیاسی مقابلہ آرائی کے جبری خاتمہ کی تازہ اور مکروہ مثال 2024 کے جاریہ عام انتخاب کے دوران بی جے پی امیدوارکا بلا مقابلہ منتخب ہونا ہے۔خبر ہے کہ گجرات کی سورت لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار مکیش دلال بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ہیں۔ ان کے انتخاب کو بی جے پی کی جانب سے لوک سبھا انتخابات کا پہلا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں سے کانگریس امیدوار نیلیش کمبھانی کا پرچہ نامزدگی منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس حلقہ سے پرچہ داخل کرنے والے 7 آزاد امیدواروں نے اپنی امیدواری واپس لے لی، اس کے بعد صرف ایک بی ایس پی کے امیدوار پیارے لال بھارتی ہی مکیش دلال کے مقابل میدان میں رہ گئے تھے لیکن انہوں نے بھی اپنی امیدواری واپس لے لی جس کے بعد حلقہ انتخاب میں مکیش دلال کے مقابل کوئی نہیں بچا، اس طرح وہ بلا مقابلہ سورت سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔22 اپریل کو سورت کے ضلع کلکٹر کم ریٹرننگ آفیسر نے انہیں فوری طور پر فاتح قرار دیتے ہوئے انہیں سند فتح بھی تفویض کردی اور بی جے پی نے جشن منانا شروع کر دیا۔گجرات کے وزیراعلیٰ بھوپیندر پٹیل نے مکیش دلال کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ان کی قبل از انتخابات جیت لوک سبھا انتخابات 2024 میں بی جے پی کی تاریخی فتح کا آغاز ہے۔ یاد رہے کہ سورت کی یہ سیٹ کانگریس 1984 کے لوک سبھا انتخاب کے بعد سے مسلسل جیتتی آ رہی ہے اور لوک سبھا انتخابات 2024 کیلئے سورت سمیت پورے گجرات کی تمام 26 سیٹوں پر 7 مئی کو ایک ہی مرحلے میں پولنگ ہونی ہے۔
اس پورے معاملہ میں جو سب سے زیادہ مشتبہ معاملہ ہے وہ ہے کہ کانگریس امیدوار نیلیش کمبھانی کے پرچہ نامزدگی کا رد کیاجانا۔ کہا جارہا ہے کہ کانگریس امیدوار کے پرچے میں گواہوں کے نام اور دستخط جعلی تھے،جس کی بنیاد پر اسے مسترد کردیا۔ کانگریس امیدوار کے پرچہ نامزدگی کی منسوخی کے حکم نامے میں کلکٹر نے لکھا کہ کمبھانی اور اس کے ڈمی امیدوار سریش پادشالا کے نامزدگی فارم میں گواہ کے طور پر جن لوگوں نے دستخط کیے، وہ ان کے جعلی دستخط تھے۔ حیرت تو یہ بھی ہے کہ کمبھانی کے یہ تجویز کنندگان کوئی اور نہیں بلکہ ان کے بہنوئی، بھتیجے اور کاروباری شراکت دار تھے۔ایسے میں ان کے دستخطوں کا جعلی ہونا صرف ایک کہانی ہی محسوس ہورہی ہے۔اس کہانی کو اگر اسی سال کے اوائل میں چنڈی گڑھ کے میئر کے انتخاب کی کہانی کاتسلسل کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کیوںکہ اس میں انتخابی اہلکار نے بی جے پی امیدوار کو فاتح قرار دینے کیلئے بیلٹ پیپر کو الٹ پلٹ اور خراب کردیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں سپریم کورٹ نے اس انتخابی نتیجہ کو منسوخ کردیا۔
اپنے امیدوار کے بلامقابلہ انتخاب کو بی جے پی سورت کے تقریباً 17 لاکھ ووٹروں کے مکمل اتفاق رائے کی علامت بتارہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انتخاب کیلئے جمہوریت میں ہونے والے سیاسی مقابلہ کے جبری خاتمہ کی جانب حکمراں جماعت کا یہ ایسا قدم ہے جو ہندوستان کی جمہوریت کو انتہائی خاموشی کے ساتھ موت کی اندھی کھائی میں جا دھکیلے گا۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہمارے انتخابات، ہماری جمہوریت، بابا صاحب امبیڈکر کا آئین سب کچھ سنگین خطرے میں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS