بوالہوس قیادت اور بے عمل الیکشن کمیشن: محمد فاروق اعظمی

0

محمد فاروق اعظمی

کہتے ہیں کہ قیادت سب کو ساتھ لے کر یکساں رفتار سے مسلسل منزل کی طرف گامزن رہنے کانام ہے۔ قیادت کیلئے لازم ہے کہ وہ صاحب بصیرت، صاحب علم، انصاف پسند، راست باز، وفادار،بے غرض ہو۔ اس میں مثبت سوچ ہواور اس کا عمل بھی مثبت ہو،اولوالعزم، ہمت و حوصلہ کا پیکر ہو، جوش و ولولہ سے بھرا ہواہو، پہل کاری جس کی عادت، برداشت جس کی خوبی ہو، طرز عمل ایسا ہو کہ سبھی کو اعتماد میں لے سکے۔ نظم و ضبط قائم رکھ سکے، قانون کی حکمرانی کا پرچم بردار ہو،تہذیب و اقدار کے تحفظ کیلئے قربانی اور بے لوثی کا جذبہ رکھتا ہو۔ قیادت کی ان مسلمہ خوبیوں کے معیار پر اگر ہم ملکی قیادت کا جائزہ لیں تو ہمیں بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ہندوستان جنت نشان میں آج جس شخص پر قیادت کا بار ہے اوراسے عوامی زندگی میں نظم و ضبط، اخلاقیات اور اقدار کے تحفظ کی اہم ذمہ داری حاصل ہے، وہ خود اس کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ یہ کوئی اور نہیں ہمارے وزیراعظم ہیں جن کی تقریروں نے ملک میں آگ سی لگارکھی ہے۔ انتخابی جلسوں میں ہونے والی ان کی ہر تقریر فرقہ وارانہ منافرت کو مہمیز دے رہی ہے۔ ان کی تقریر سن کر ایسا لگ نہیں رہاہے کہ یہ کسی جمہوری ملک کے وزیراعظم کی تقریر ہے جس پرسب کو ساتھ لے کر یکساں رفتار سے مسلسل منزل کی جانب گامزن رہنے کا بارعظیم ہے۔
جاری انتخابات میں بھی وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی نے تمام حدیں پار کر دی ہیں لیکن الیکشن کمیشن مکمل طور پر خاموش ہے۔ جہاں ایک طرف جناب وزیراعظم اور ان کی پارٹی فرقہ وارانہ ایجنڈے پر سختی سے کاربند ہیں، ہر تقریر میں مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں، وہیں دوسری طرف کانگریس اور اپوزیشن کو مسلسل جھوٹ بول کر بدنام کیا جا رہا ہے۔ جو کہ قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یہ نہ صرف عوامی نمائندگی ایکٹ بلکہ جنرل کریمنل کوڈ اور عدالتی عمل کے بھی خلاف ہے۔ نریندر مودی نے کانگریس کے منشور کو ’مسلم لیگ سے متاثر‘ قرار دیا حالانکہ اس میں کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی تقریر یہ کہہ کر پیش کی گئی کہ ’کانگریس منگل سوتر بھی لے کر مسلمانوں میں بانٹ دے گی۔‘ مودی نے کہا کہ اس سے پہلے جب ان کی حکومت تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس جائیداد کو جمع کرنے کے بعد وہ اسے کس میں تقسیم کریں گے- جن کے زیادہ بچے ہیں۔ وہ اسے دراندازوں میں تقسیم کریں گے۔ منموہن سنگھ کی حکومت نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔
اس کے بعد چھتیس گڑھ میں وراثت ٹیکس کے حوالے سے وزیراعظم مودی نے جھوٹ کا طومار باندھا اور کہا کہ شاہی خاندان کے شہزادے کے مشیر نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ متوسط طبقے پر مزید ٹیکس لگائے جائیں۔ (واضح رہے کہ شاہی خاندان سے مراد گاندھی خاندان ہے اور شہزادہ وہ راہل گاندھی کو قرار دیتے ہیں، مشیر کا اشارہ آل انڈیا اوورسیز کانگریس کے چیئرمین سیم پترودا کی جانب تھا)۔
وزیراعظم نے کھلاجھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ اب کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ وراثت ٹیکس لگائے گی یعنی والدین سے ملنے والی وراثت پر بھی ٹیکس لگائے گی۔ جب تک آپ زندہ ہیں کانگریس آپ پر زیادہ ٹیکس لگائے گی اور جب آپ زندہ نہیں رہیں گے تو آپ پر وراثتی ٹیکس کا بوجھ ڈالے گی۔ وہ لوگ جو پوری کانگریس پارٹی کو اپنی آبائی جائیداد سمجھتے تھے اور اپنے بچوں کو دیتے تھے، اب نہیں چاہتے کہ ہندوستانی اپنی جائیداد اپنے بچوں کو دیں۔اپنے خاندان کی چار نسلوں کی دولت بغیر ٹیکس کے حاصل کرنے کے بعد اب یہ لوگ عام آدمی کی وراثت اور محنت کی کمائی پر ٹیکس لگا کر اس کی آدھی دولت لوٹنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کامطلب یہ ہے کہ ’ کانگریس کی لوٹ زندگی کے ساتھ بھی، بعد بھی‘۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو کانگریس کے عزائم سے بچانے کیلئے وہ دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ کانگریس کے منصوبے کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہ مودی کی ضمانت ہے۔
ستم تو یہ ہے کہ نگراں ادارہ الیکشن کمیشن آف انڈیا خاموش رہ کروزیراعظم کے اس طرز عمل کی حمایت بھی کررہا ہے۔ مستقبل میں جب بھی اس دور کا تذکرہ ہوگا، قیادت اور الیکشن کمیشن کی بات ہوگی تو یہی کہاجائے گا کہ اس سے زیادہ بوالہوس قیادت اور اس سے زیادہ کمزور اور بے بس الیکشن کمیشن ملک کے عوام نے کبھی نہیں دیکھا۔ وزیراعظم مودی کی قیادت اور راجیو کمار کی سربراہی میں کام کرنے والے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے اپنائے گئے متعصبانہ رویے نے قوم کے ان بانیوں کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے جنہوں نے آزاد آئینی ادارے بنائے تھے تاکہ حکومت اور قیادت کی من مانی پر روک لگاکر عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کو دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ملک نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے جب کئی مضبوط وزرائے اعظم اور ان کی حکومتوں،پوری حکومتی مشینری کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور اپنے ماتحتوں کو غیرجانبداری، آزادی اور اختیار کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دی۔
ہر چند کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار بار بار اس عزم کا اظہار کررہے ہیں کہ وہ آزادانہ، منصفانہ اور خوف و ہراس سے پاک انتخابات کے لیے برابری کے میدان کو یقینی بنائیںگے لیکن ان کے اس عزم، یقین دہانی اور وعدے کی کوئی زمینی حقیقت نہیں رہ گئی ہے۔ لوک سبھا انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے 16مارچ 2024کو بھی چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ ان کا عہد ہے کہ وہ ملکی انتخابات ایسے انداز میں منعقد کریں گے کہ ہندوستان کی شہرت عالمی سطح پر روشن ہوسکے۔ ہر انتخاب آئین کی جانب سے دی گئی ایک مقدس ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کیلئے اپنی پختہ عہد مندی پر قائم ہے۔وہ قوم کو ایک حقیقی جشن اور جمہوری ماحول فراہم کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ لیکن ان کی عہد مندی اور عزم بھی پہلے ہی مرحلہ میںجھوٹ ثابت ہوا۔تعصب، امتیازاور کھلی جانب داری کے الزامات کے تحت مختلف سیاسی پارٹیوں نے کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج اور مظاہرہ کیا۔ ترنمول کانگریس کی سپریمو ممتابنرجی نے تو کھل کر یہ الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن، بھارتیہ جنتاپارٹی کیلئے کام کررہاہے۔وزیراعظم مودی اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی فرقہ وارانہ انتخابی مہم پر الیکشن کمیشن کی بے عملی، خاموشی دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ ممتابنرجی کا الزام درست ہے۔حصول اقتدار کیلئے ملکی قیادت اور حکمراں جماعت کاطرزعمل تو جمہوریت پر کاری ضرب ہے ہی، آئینی ادارہ الیکشن کمیشن کی بے عملی نے لوک سبھا انتخاب2024کو عملاً مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS