مہذب معاشرے میں رواداری اور شیریں زبانی لازمی: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے دساتیراور ان کے تحت بنائے گئے مختلف قوانین و اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق تمام بین الاقوامی دستاویزات جیسے انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ، شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق سے متعلق منشور، اقوام متحدہ کا چارٹر و دیگر بین الاقوامی دستاویزات میں مذہب کی آزادی اور ثقافت کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے یا ان کا التزام ہے۔ ایسی ضمانت نہ صرف جمہوری ممالک میں بلکہ ایسے ممالک میں بھی دی گئی ہے جہاں نام نہاد جمہوری نظام ہے یا مذہبی حکومت ہے لیکن ان تمام اقدام کے باوجود آج بھی کہیں کہیں مذہبی رواداری میں کمی محسوس ہوتی ہے اور ایک مذہب کے ماننے والوں کا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ باہمی میل جول میں اتنا مثبت ربط نظر نہیں آتا جتنا کہ ہونا چاہیے۔ آج بھی بہت سے معمولی تنازعات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ محض دستور یا دیگر قوانین میں مذہبی آزادی دینا کافی نہیں ہے بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے جہاں ایک مذہب کے ماننے والے لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والے لوگوں کا دل سے احترام کریں، ان کے یا ان کے مذہب یا عقیدے کے خلاف نہ کوئی ایسی بات کہیں اور نہ ایسا کوئی کام کریں جس سے ان کے جذبات مجروح ہوں۔ کسی بھی مہذب اور غیرمہذب ملک کے درمیان کوئی امتیازی لکیر کھینچنی ہو تو بلاشبہ وہ اس بنیاد پر کھینچی جاسکتی ہے کہ وہاں لوگوں کو صحیح معنوں میں کتنی مذہبی آزادی حاصل ہے اور وہاں کسی کے مذہب اور عقیدے کا کس حد تک احترام کیا جاتا ہے۔ صحیح معنوں میں مہذب ملک یا مہذب قوم وہی ہے جہاں نہ صرف مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہو بلکہ عملاً ایسا کیا جارہا ہو اور کسی بھی شخص کو اس معاملے میں احساس تفریق یا احساس امتیاز نہ ہو۔جب بھی مذہبی رواداری کی بات ہوتی ہے تو محض اقلیتوں کی بات کی جاتی ہے، دراصل ہر فرقے بلکہ ہر فرد کا، خواہ اس کا تعلق اقلیتی فرقے سے ہو یا اکثریتی فرقے سے، یہ فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مذہب کا مکمل احترام کرے۔

دنیا کے دیگر قانونی اور اخلاقی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک کی طرح بھارت میں بھی نہ صرف اس کے آئین میں بلکہ دیگر قوانین میں مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ مذہبی رواداری کو بھی بہت اہمیت دی گئی ہے اور ہر بھارتی کو اس بات کے لیے ممانعت کی گئی ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔ تعزیرات ہند کی جگہ لایا جانے والا بھارتیہ نیائے سنہتا، جو یکم جولائی، 2024 سے نافذالعمل ہوگا، اس میں بھی تعزیرات ہند کی طرز پر دفعات 298تا 300 شامل کرکے اس بات کو یقینی بنا یا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی عبادت گاہ کو نقصان نہ پہنچائے اور اسے ناپاک نہ کرے، کسی بھی مذہبی مجمع میں خلل نہ ڈالے اورجان بوجھ کر بدنیتی سے ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں یا کسی مذہب کی توہین ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجود کبھی کبھی جذبات کی رو میں بہہ کرکچھ ذمہ دار لوگ بھی کسی مخصوص طبقے کی بابت ایسی دلخراش بات کہہ دیتے ہیں یا ایسے بیان دے دیتے ہیں یا ایسے نازیبا کلمات استعمال کر دیے جاتے ہیں یا ایسے مضامین تحریر فرما دیے جاتے ہیں جن سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں اور معاشرے میں انتشاری کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ کبھی کچھ لوگ کسی عبادت گاہ کو یا کسی ایسی شے کو، جسے کسی فرقے کے لوگ مقدس مانتے ہوں، نقصان پہنچا نے یاجان بوجھ کر ایسا کوئی قبیح فعل انجام دے دیتے ہیں جس سے فریق ثانی کی دل آزاری ہو یا کبھی کبھی کسی سیاسی فائدے کے لیے کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس سے انہیں اپنی کسی غرض کو پورا کرنے میں مدد ملے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئینی یا قانونی اقدامات سے زیادہ سوچ اور انداز فکر میں تبدیلی لائی جائے۔ ہر شخص کا یہ فرض ہے اور ہر شخص کو یہ تعلیم دی جانی چاہیے اور یہ بتایا جانا چاہیے کہ وہ ایسا کوئی کام نہ کرے اور نہ کوئی ایسی حرکت کرے اور نہ ہی ایسی کوئی بات کہے جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں۔ یہ پیغام ہر گھر تک پہنچنا چاہیے۔ اس کام میں سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کی شرکت بھی اشد ضروری ہے۔ کسی بھی مہذب سماج میں مذہبی منافرت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر مذہب کے نام پر کسی بھی شخص کو کسی بھی حق سے محروم کیا جاتا ہو یا اس کے ساتھ کوئی امتیاز برتا جاتا ہو تو اس تفریقی ماحول میں کوئی بھی ملک یا کوئی بھی قوم یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ اقوام متحدہ کے اصولوں اور بین الاقوامی اقدار کا احترام کر رہی ہے۔ امتیاز سے پاک وصاف معاشرے میں ہی لوگوں کے مابین صحیح میل جول اور حقیقی محبت پروان چڑھ سکتی ہے۔ یہی جذبہ اتحاد چھوٹے سے چھوٹے ملک کو ایک عظیم مملکت کا مرتبہ دلا سکتا ہے۔ کسی بھی مذہب کی تنقید برائے تنقید کا کوئی جواز نہیں، ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم ہر مذہب کی اچھی باتوں کی طرف نظر ڈالیں اور کبھی بھی اس بات کی کوشش نہ کریں کہ کسی مذہب میں عیب نکالیں۔ ضرورت مباحثے یا موازنے کی نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مذاہب کے پیشوا، رہنما اور پیروکار ایک جگہ اکٹھے ہوں اور ایک ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے تمام مذاہب کے درمیان یگانگت پیدا ہو اور باہمی رواداری ویکجہتی کی راہ ہموار ہو۔ اگر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر نہیں رہیں گے اور انسانی حقوق کا احترام نہیں کریں گے تو اس دنیا کو ایک گلوبل ولیج کہنا بے معنی ہوگا۔

مذہبی رواداری کے معاملے میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو بھی مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبا کو تمام مذاہب کی اچھی باتوں سے روشناس کرائیں اور انہیں تنازعاتی امور سے دور رکھیں تاکہ وہ کل کے اچھے شہری بنیں اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کریں۔ کسی بھی طالب علم کے دماغ میں کسی بھی مذہب یا فرقے کے خلاف کوئی بات ڈالنا اس کے صحت مند فروغ اور نشوونما میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہے کیونکہ امتیازی انداز فکر کبھی بھی صحت مند معاشرے کو جنم نہیں دے سکتا اور یہاں تک کہ صحت مند معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ نئی نسل کسی ملک کی اسی طرح بنیاد ہوتی ہے جس طرح کسی عمارت کی بنیاد۔ اگر بنیاد کمزور ہو تو عمارت کبھی مضبوط نہیں ہوسکتی۔
اس کے علاوہ جب بھی ناگہانی حالات ہوں مثلاً جنگی حالات، قدرتی آفات وغیرہ تو سب اپنے مذہب اور عقائد کا احترام کرتے ہوئے اور ساتھ ہی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے جذبات مجروح کیے بغیر صرف قومی ضرورت اور قومی جذبے وحب الوطنی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا فرض ادا کریں اور اپنی کسی بھی امدادی کارروائی میں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ یہ کام عوام الناس کے لیے نہیں بلکہ کسی فرقے کے لیے کررہے ہیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS