بنگال:سیاسی پارٹیوں کی بے حسی

0

کورونا وبااپنے دوسرے سال میں داخل ہوگئی ہے اوراس پر قابو پانے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ اس مرض الموت کا ٹیکہ آجانے کے باوجود بھی تمام لوگوں تک اس کی فراہمی نہیں ہوپارہی ہے۔ حکمرانوں کے پاس اس وبا سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے اور وہ ہے لاک ڈائون، نیم لاک ڈائون ، ہفتہ واری لاک ڈائون اور نائٹ کرفیوکا ظالمانہ نفاذ۔ یہ لاک ڈائون اور بندشیں کتنی کارگر ہونے والی ہیں، اس کا اندازہ تو گزشتہ سال لگائے جانے والے لاک ڈائون سے ہی ہوگیا ہے لیکن حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکمراں اس بے فیض لاک ڈائو ن کے معاملے میں بھی مخلص نہیں ہیں۔ کوروناسے نمٹنے کیلئے ایک طرف سماجی فاصلے اور سرکاری گائیڈ لائن کی دہائی دے کر عوام الناس سے یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ ان کی مکمل پاسداری کرے لیکن وہ اپنی ذات کو اس سے مستثنیٰ رکھ رہے ہیں۔روزانہ تقریباً دو لاکھ کے قریب نئے کیسیز ریکارڈ ہورہے ہیں اور مرنے والوں کی یومیہ تعداد بھی ایک ہزار سے زیادہ ہوگئی۔ اترپردیش، دہلی، چھتیس گڑھ، گجرات اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں موت اپنے بھیانک پر پھیلائے رقص میں مشغول ہے۔لاشیں جلانے کیلئے شمشان گھاٹوں میں جگہ نہیں مل رہی ہے۔ عوام کی زندگی جہنم بن کر رہ گئی ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کی بے حسی ہے کہ ختم ہوتی نظرنہیں آرہی ہے۔ مغربی بنگال جہاں ان دنوں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں، وہاں سیاسی پارٹیوں کی یہ بے حسی، بے غیرتی حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ عوام کو کورونا کے آزار سے بچانے کے بجائے کم و بیش تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار کی ہڈی کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔
ہر چند کہ ابھی مغربی بنگال میں دہلی اور دوسری ریاستوں جیسی صورتحال نہیں ہے لیکن آثار بتارہے ہیں کہ بنگال دوسری تمام ریاستوں کو بہت جلد پیچھے چھوڑ دے گا۔ گزشتہ24گھنٹوں میں مغربی بنگال میں کورونا کے 5ہزار معاملات سامنے آئے ہیں، یہ ایک ہی دن میں اب تک کا سب سے زیادہ ریکارڈ ہے۔ اس دوران دو درجن افراد کورونا سے ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ جمعرات کی صبح کورونا متاثرہ ایک کانگریس امیدوار رضاء الحق کی بھی موت ہوچکی ہے۔لیکن باوجود اس کے سیاسی پارٹیاں اپنی ریلی ، جلسے جلوس کررہی ہیں اور ان میں عوام کی بھیڑہورہی ہے اسے دیکھ کر خوف پیدا ہورہاہے۔ مغربی بنگال میں ابھی چار مرحلوں کی پولنگ باقی ہے جس کیلئے سیاسی پارٹیاں دن رات ایک کیے ہوئی ہیں۔ ایک دن میں ایک درجن ریلیاں ہورہی ہیں جن میں پارٹیوں کے قومی قائدا ور دوسرے بڑے لیڈرکھلے عام کورونا پروٹوکول کی دھجیاں اڑ ارہے ہیں۔ نہ لیڈر ماسک لگارہاہے اور نہ عام آدمی کو ہی اس کی فکر ہے۔ سماجی فاصلہ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے۔اس معاملے میں با ر بار سیاسی جماعتوں سے اپیل کی گئی لیکن کسی نے کان نہیں دھرا بالآخر اس معاملے میں عدالت میں مفادعامہ کی عرضی دائر کی گئی جس کی سماعت کرتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو حکم دیاہے کہ وہ سیاسی جلسے جلوس میں کورونا گائیڈلائن پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ٹی بی این رادھا کرشنن کا کہنا ہے کہ کووڈ پروٹوکول پرعمل نہ کرنے والے لیڈروں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔کسی بھی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت کو معاشرے کے دوسرے ممبروں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ عدالت نے ہدایت دی ہے کہ اگر انتظامیہ کو پتہ چلتا ہے کہ کوئی شخص چاہے وہ انتخابی مہم میں مصروف ہویا کویڈ پروٹوکول پر عمل نہ کررہا ہو، ایسے شخص کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور محفوظ فاصلے کے اصولوں پر عمل کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے محفوظ فاصلہ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے ضرورت پڑنے پر حکم امتناعی نافذ کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔
کورونا کی اس بھیانک صورتحال اور عدالت کی مداخلت کے بعد تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ جلسے جلوسوں پر مکمل پابندی لگادی جاتی لیکن لگ رہاہے کہ الیکشن کمیشن اس معاملے میں کسی ناگہانی کا انتظار کررہاہے۔ غور و خوض اور میٹنگ و بات چیت سے سیاسی جماعتوں کو حالات کی سنگینی بتانے کیلئے کمیشن نے جمعہ 16اپریل کو کل جماعتی میٹنگ بلائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میٹنگ میں سیاسی جماعتیں حالات کی سنگینی کا ادراک کرکے اپنے جلسے جلوس بند کرتی ہیں یا پھر کورونا سے بچائو کے بجائے اقتدار تک رسائی ان کیلئے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS