جانے والا جو بھی تھا‘ چیز تھا !

0

( استاذ مرحوم مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری کی وفات حسرت آیات پہ )

( ازقلم رضوان ریاضی۔ ایڈیٹر میگزین رہنما‘ وچیرمین آل انڈیا التقوی ایجوکیشنل گروپ نئی دہلی )

میں اپنی کنسٹرکشن کمپنی (Riyazi Construction and Developers Private Limited) اور سیاحتی کمپنی (Riyazi Tour and Travel Private Limite) کے تعارف کے حوالے سے سعودی عرب کے دورے پہ تھا۔دو سال قبل 2015 ء جو نیپال میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا‘ اس کے بعد ہندستان میں سب سے بڑا زلزلہ نوٹ بندی کا تھا جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے اور اربوں کھربوں روپیوں کا بزنس نقصان ہوا۔ خاص کر کنسٹرکشن کمپنیوں کا تو دیوالیہ ہو گیا۔ اس لیے مجھے خلیجی ممالک میں اپنی کمپنیوں کے لیے کام کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ آج پوری دنیا میں تقریباً ساری کمپنیاں خسارے کی طرف آگے قدم بڑھا چکی ہیں اور ملازمین سے معذرت کرنے پر مجبور ہیں مگر خلیجی ممالک میں اس کسادبازاری کے ماحول میں بھی دیگر ممالک کے بہ نسبت حالات قدرے بہتر ہیں‘ حالانکہ اقتصاد یہاں کا بھی بہت کمزور ہوا ہے‘ اس لیے میں نے یہاں کا رخ کیا تھا۔ یہاں کی کنسٹرکشن کمپنیوں میں شبہ الجزیرہ کا نام بہت آگے ہے جس میں تقریباً پندرہ ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔ اسی کمپنی کے ایک سینئر منیجر جناب عبد اللہ فلاتہ سے میری میٹنگ تھی۔ وہ چونکہ چین میں اپنی کمپنی کے لیے خریداری کرنے گئے تھے اور عید کی شب اُن کا سعودی عرب میں ورود ہونا تھا۔ میں بہت خوش تھا کہ عید کے روز میری ایک تاریخی میٹنگ ہونے والی ہے اور اگر میٹنگ کامیاب ہو جائے گی تو میری کمپنیوں کے لیے بھی کچھ دنوں تک تقویت کا سامان فراہم ہو جائے گا لیکن اتفاق سے اُن کی فلائٹ سعودی عرب نہیں پہنچ سکی اور اِدھر تقریباً گیارہ بجے دن میں میرے واٹس ایپ کے علماء اینڈ انٹلکچولس گروپ میں کرناٹک کے علاقہ رائیدرگ سے تعلق رکھنے والے برادر عزیز جناب حافظ انس جامعی نے ایک اندوہناک اور کربناک خبربھیجی جس کو پڑھ کر ہمارے ذہن ودماغ میں زلزلہ آ گیا۔

’’یہ کیا ہو گیا۔ سچ مچ اس عظیم شخصیت کا انتقال ہو گیا۔ کیا ایسی جنٹل مین اور وقت کی پابندی کرنے والی شخصیات بھی کہیں انتقال کرتی ہیں۔ کیا ایسے افراد بھی مر جاتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا کسی دینی ادارے کے لیے وقف ہو۔ کیا ایسے لوگ بھی مر جاتے ہیں جن کا ایک دن بھی اپنی ذات کے لیے نہیں گزرتا ہے۔ کیا ایسی شخصیت بھی اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے جس کا Discipline اور Dedication انتہائی مستحکم اور مثالی ہو۔ کیا ایسے لوگ بھی اللہ کے پیارے ہو جاتے ہیں جن کے چاہنے والے ہزاروں میں ہوں؟!‘‘

پھر عقل کچھ ٹھکانے آئی اور میں چند لمحوں کے لیے ماضی کی یاد میں کھو گیا۔اب کیا تھا۔ بچپن کا وہ زمانہ اور استاذ مرحوم مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری کے وہ سارے کلمات میرے کانوں میں گونجنے لگے۔

“بھئی رضوان! سبق تو آپ نے یاد کر ہی لیا ہوگا۔ چلیں ہم آج آپ ہی سے درس کا آغاز کرتے ہیں”۔

“واہ بھئی! لگتا ہے مشکوۃ المصابیح کا اعراب والا نسخہ پڑھ کر آئے ہو!! چلو ماشاء اللہ‘ بھئی عبد الحسیب ہسکوٹہ! آگے آپ پڑھیں گے۔ اچھا چلیں میں ترجمہ کرتا ہوں”۔

اور پھر استاذ محترم ترجمہ وترجمانی کے تناظر میں احادیث پڑھاتے اور انتہائی مشفقانہ انداز میں پڑھاتے۔ ابھی میں یادِ ماضی کے ایام میں مولانا مرحوم کی ساری باتیں یاد کر کے سر دھن رہا تھا کہ اچانک میں نے زور سے اپنے وجود کو جھنجھوڑا اور شاعر کا یہ شعر پڑھنے لگا:

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

آج سال 2017ء میں جون کی 25 ویں تاریخ ہے۔آج سعودی عرب میں ہم لوگوں نے عید کی نماز پڑھی ہے جبکہ کل مورخہ 26جون کو انڈیا میں عید کی نماز پڑھی جائے گی۔ جامعہ دار السلام عمر آباد میں میں نے سن 1992 سے 1996ء کے درمیان نصف چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مجھے وہاں سے رخصت ہونا پڑا تھا۔ اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ جامعہ دار السلام عمر آباد میں بقرعید کی تعطیل ہو چکی تھی ۔چونکہ تعطیل کی مدت اتنی مختصر تھی کہ میں بہار اپنے گاؤں رخصت کے ایام گزارنے نہیں جا سکتا تھا چنانچہ جامعہ ہی میں دیگر بہار اوریوپی کے طلبہ کے ساتھ رہ گیا۔ بقرعید کے روز نہا دھو کر عیدگاہ پہنچا تو جماعت کھڑی ہو رہی تھی۔ میں بھی اور طلبہ کے ساتھ صف میں کھڑا ہو گیا۔ نماز کے بعد ہم لوگ کلیہ کے ہاسٹل میں آے اور پھر میں ہاسٹل انچارج سے چھٹی لے کر آمبور شہر میں ڈاکٹر مظہر الحق مرحوم کی خدمت میں پہنچ گیا۔ وہ جماعت اہل قرآن کے ممبر اور منکرین حدیث میں سے تھے مگر بہت ہی پیار سے طلبہ سے ملا کرتے تھے۔ ان کی کمپنی میں دوائیاں بنائی جاتی تھیں جن کے ڈبوں پر انگلش کے ساتھ اردو میں بھی لکھا جاتا تھا انھیں میرے کلاس فیلو جناب محمد رفیع کلوری عمری نے میرے بارے میں بتلایا تھا کہ میں عربی اور اردو زبانوں کا کاتب ہوں۔ چنانچہ انھوں نے میرا انتخاب کر لیا تھا اور میں ان کی دواؤں کے ڈبوں پہ اردو میں کتابت کیا کرتا تھا۔اتفاق سے عصر کی نماز میں مسجد سلطان میں استاذ مرحوم پہنچ گئے اور سب سے پہلے انھوں نے میرا نام لے کر پوچھا: رضوان کہاں ہے؟ رضوان غائب شد۔ فرمایا: جب وہ آئے تو ہاسٹل میں داخل ہونے سے قبل میرے پاس اسے بھیجا جائے۔ چنانچہ جب میں عشاء کے کچھ دیر بعد آمبور سے عمرآباد آیا اور کلیہ کے ہاسٹل میں پہنچا تو اس وقت کے دربان نے (مجھے ابھی نام یاد نہیں) مجھ سے کہا کہ آپ مولانا خلیل الرحمن اعظمی صاحب سے مل کر آؤ تو میں تمھیں ہاسٹل میں جانے کی اجازت دوں گا کیونکہ مولانا صاحب نے مجھ سے بولا ہے کہ جب تک رضوان میرے پاس نہ آئے ہاسٹل میں داخلہ ممنوع ہے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں‘ میں مولانا صاحب کے گھر جاتا ہوں اور ان سے ملاقات کرکے آتا ہوں۔جب میں مولانا مرحوم کے گھر گیا تو وہ آغوشِ نیند میں جا چکے تھے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور ہاسٹل کے دروازے پہ آیا تو دربان نے پوچھا کہ مولانا سے بات ہو گئی۔ میں نے کہا کہ چونکہ مولانا سو رہے ہیں اس لیے بات نہیں ہو سکی‘ ان شاء اللہ فجر میں بات کر لوں گا۔ دربان کہنے لگا کہ جب تک ان سے ملاقات نہیں ہوگی میں اندر ہاسٹل میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ میں صبح سویرے مولانا سے ملاقات کر لوں گا لیکن وفادار دربان ناسمجھی کی حدیں پار کر چکا تھا او رچیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں تمھیں اندر نہیں جانے دوں گا جب تک کہ تم مولانا سے ملاقات نہ کر لو۔ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ مجھے ہاسٹل کے اندر جانے کی اجازت مل جائے مگر  اتنی رات کو بھی دربان ماننے کو تیار نہ تھا۔اب کیا تھا میں نے بھی اس کا راز اسی وقت دوست طلبہ کے سامنے کھول دیا۔ میں نے بھی بآواز بلند کہنا شروع کیا کہ میں تم کو روزانہ پانچ روپیہ چائے پینے کے لیے اس لیے دیتا ہوں کہ تم مجھے ہاسٹل کے مین گیٹ کی چابھی دے دیتے ہو اور میں دو بجے رات کو ہاسٹل کا گیٹ کھول کر باہر پڑھنے چلا جاتا ہوں اور پھر چار بجے صبح کو گیٹ بند کر کے چابھی تمھارے سرہانے رکھ دیتا ہوں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے اور میری اس بات کی گواہ میرے کلاس فیلو نصیب اللہ عمری بھی ہیں جن کو کبھی کبھار میں جگا کر اپنے ساتھ پڑھنے ہاسٹل کے باہر لے جایا کرتا تھا۔ تو پھر آج تم مجھے ہاسٹل میں کیوں نہیں جانے دیتے ہو۔ کیا اس کے لیے بھی مجھے پانچ روپئے دینے ہوں گے؟!

اب کیا تھا۔ دربان نے تو گویا آسمان سر پہ اٹھا لیا اور مجھے گیٹ سے باہر کر کے دروازہ بند کرنے لگا۔ میں نے بھی اس کے ساتھ زبردستی کی اوراسے دھکے دیتا ہوا ہاسٹل کے اندر اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔صبح ہوئی تو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طرح آنسو بہاتا ہوا ناظم مرحوم کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگاکہ رضوان نے آپ کے بارے میں بولا ہے کہ میں ناظم صاحب کو نہیں جانتا ہوں‘ میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا‘ تم کو جو چاہے کر لو‘ اور یہ کہہ کر مجھے دھکا دیتے ہوئے ہاسٹل میں گھس گیا۔ ظاہر ہے اس ترجمانی پہ استاذ مرحوم کا طیش میں آ جانا فطری امر تھا۔ جب میں صبح استاذ مرحوم کی خدمت میں اپنے بارے میں تفصیل بتانے کے لیے حاضر ہوا تو مجھے دیکھتے ہی انھوں نے کہنا شروع کیا کہ رضوان تم جامعہ سے چلے جاؤ‘ تم یہ اور اُو….. ہو۔ غرض جو کچھ بن پڑا انھوں نے میری سرزنش کی اور میں واپس ہاسٹل میں آیا اور اپنے سامان باندھ کر جامعہ دار السلام سے دہلی جامعہ ریاض العلوم جانے کا فیصلہ کر لیا۔جب میں آخری بار مولانا مرحوم سے ملنے گیا اور انھیں اپنے ہاتھ کا کاغذ بڑھایا کہ میں آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جامعہ سے رخصت ہو رہا ہوں تو مجھے آج اس وقت کا منظر بہت اچھی طرح سے نقش ہے۔ استاذ مرحوم ایک گلاس پانی ہاتھ میں لیے ہوئے تھے فوراً زمین پہ بیٹھ گئے اور پھر چند لمحہ کے لیے بیٹھے رہے۔ مجھے احساس ہو گیا کہ شاید مولانا مرحوم کو اب میرا جانا ناگوار سا گزر رہا ہے۔ لیکن انھوں نے اس وقت بھی مجھ سے ایک بار بھی رکنے کو نہیں کہا ورنہ میں جامعہ میں رک جاتا۔ کیونکہ مجھے جامعہ دار السلام سے اتنی محبت تھی کہ میں اس کو الفاظ میں نہیں بیان کر سکتا۔ قصہ مختصر کہ میں 1996ء میں جامعہ دار السلام عمر آباد سے جامعہ ریاض العلوم دہلی منتقل ہو گیا اور اس کے بعد کئی ایک مراسلے ہمارے اور استاذ مرحوم کے درمیان ہوئے جس میں انھوں نے یہ لکھا تھا کہ عزیز القدر رضوان ! مجھے ذاتی طور پہ آپ سے کوئی رنجش نہیں تھی مگر میں اصولوں کا غلام ہوں اور اصول پسندی میری فطرت۔

قارئین کرام! استاذ مرحوم کے کئی گوشوں پہ ان کے شاگردان قلم اٹھائیں گے اور ان کی سوانح بھی ان شاء اللہ مرتب کی جائے گی اور جامعہ دار السلام عمر آباد کے ذمے داران خاص کر میں کاکا انیس احمد عمری حفظہ اللہ سے گزارش کروں گا کہ وہ استاذ مرحوم کا سوانحی خاکہ مرتب کروائیں اور ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک سیمینار کلیہ کے ہال میں منعقد کروائیں جس میں ان کے شاگردوں کی خاصی تعداد کو دعوت دی جائے او جو اپنے اپنے طور پہ دو چار صفحات پر مشتمل اپنے تاثرات قلمبند کر کے مقالات کی شکل میں پیش کریں‘ ایسا کرنے سے ایک انمول ذخیرہ جامعہ کی ڈائری کا حصہ بن جائے گا اور اس طرح ہم آنے والی نسلوں کے لیے صحیح معلومات فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

چونکہ آج کل لوگ واٹس ایپ اور فیس بک کے اتنے دیوانے ہیں کہ طویل تحریریں نہ تو انھیں پڑھنے کا وقت ہے اور نہ ہی لکھنے کا۔ اس لیے میں یہاں استاذ مرحوم کی چند خصوصیات درج کر کے اپنی بات ختم کرتا ہوں:

۱۔ استاذ مرحوم وقت کے بڑے پابند تھے اور یہی وہ عظیم خوبی تھی کہ وہ سارے اساتذہ پہ حاوی رہتے تھے۔ وقت کی قدر وقیمت کے حوالے سے آج بھی عمر آباد کے طلبہ اور اساتذہ استاذ مرحوم کا وہ واقعہ نہیں بھول پائیں گے کہ جب ان کے گھر میں کسی بیٹے یا بیٹی کی شادی تھی‘ اس روز طلبہ بہت خوش تھے کہ آج کی گھنٹی مولانا خلیل الرحمن صاحب کی ہے اور وہ شادی میں مشغول ہیں اس لیے کلاس نہیں آئیں گے۔ ابھی طلبہ کے درمیان چہ میگوئیاں ہو ہی رہی تھیں کہ اچانک استاذ محترم کلاس میں پہنچ گئے اورکتاب پڑھانے لگے۔ سبق پڑھا کر پھر شادی میں اپنے گھر چلے گئے۔ یہ واقعہ دیکھ کر سارے طلبہ حیران وشسدر تھے کہ کیا ایسا بھی ہوتا ہے!! اللہ اکبر! اس واقعہ پہ آپ خود ہی غور کریں اور سوچیں کہ استاذ محترم کی شخصیت کا کتنا حصہ ہمارے اندر ہے؟!

۲۔استاذ مرحوم جامعہ دار السلام اور اس کے ذمے داران کے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ اور انتہائی وفادار تھے۔

۳۔ استاذ مرحوم ڈسپلن اور تنظیمی صلاحیت میں اپنی مثال آپ تھے۔ کم سے کم میری اس بات سے وہ تمام افراد اتفاق رکھیں گے جنھوں نے استاذ مرحوم کو چند دنوں تک دیکھا ہے۔

میں استاذ مرحوم کے ڈسپلن سے بہت زیادہ متاثر تھا اور شروع سے ہی میں نے ان کے ڈسپلن کو اپنا اسوہ بنانے کی کوشش بھی کی۔ آپ کو بتلا دوں کہ جب تک میں نے ان کے ڈسپلن کو اپنایا اور اپنے ملازمین سے پہلے آفس اور اسکول پہنچتا رہا میری ترقیوں میں چار چاند لگتا رہا اور کبھی بھی بینک بیلنس ختم نہیں ہوالیکن جب سے میں نے ان کی طرح ڈسپلن سے گریز کیا ہے اورسستی کو اپنی زندگی میں جگہ دی ہے میرے سارے ادارے معدودے چند کے‘ خسارے میں قدم رکھ چکے ہیں اور بینک بیلنس نے گھونسلہ خالی کر دیا ہے اور میری کمپنیوں اور کالج یا اسکولز میں فائدے کے بجائے نقصانات ہو رہے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں سے میں نے پھر ان ہی کی طرح جنونانہ محنت اور ڈسپلن کو اپنانا شروع کر دیا ہے اور الحمد للہ اب اچھے دن آنے کے امکانات وآثار نظر آنے لگ گئے ہیں۔ سچ کہتا ہوں کہ میں جب عمرآباد سے نکلا تھا تو استاذ مرحوم سے زیادہ غلط آدمی اس زمین پہ میرے نزدیک کوئی اور نہ تھا لیکن جب میں ریاض العلوم دہلی سے فراغت کے بعد سعودی عرب کی مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی ملازمت تک پہنچا اور آج کئی ایک دینی وعصری ادارے‘ کالج اور ایک آنر شپ کے علاوہ پانچ لمیٹڈ کمپنیوں کا چیرمین ہوں‘ تو استاذ محترم سے زیادہ کوئی تنظیمی صلاحیت والا اور ڈسپلن والا اچھا شخص نظر نہیں آ رہا ہے۔ میں نے جو کچھ استاذ مرحوم سے سیکھا اسی کا فائدہ میں آج اٹھا رہا ہوں‘ یقیناًآج وہی شخصیت میرے لیے سب سے زیادہ عظیم ہے جس کو میں نے کسی دن سب سے برا سمجھا تھا۔ یہ میری کم علمی اور ناسمجھی تھی۔ اور اسی تناظر میں ایک دفعہ استاذ محترم مولانا عبد الصمد جعفری عمری حفظہ اللہ نے کلاس میں عمرآباد ہیں پڑھاتے ہوئے سمجھایا تھا کہ اس دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی محبت اور اخلاص میں شک کی گنجائش نہیں ہوتی؛ ایک حقیقی ماں باپ‘ اور دوسرے استاذ گرامی۔

گزشتہ سال 2016ء کے ماہِ مارچ میں جامعہ دار السلام عمر آباد کی سب سے حساس انجمن تہذیب الاخلاق کی صدارت کے لیے میرا نام منتخب کیا گیا تھا اس مناسبت سے میں نے استاذ مرحوم کی زیارت کی تھی‘ عمر کے آخری لمحات میں بھی بلا کا حافظہ تھا۔ میں نے اپنی پرانی داستانیں سناتے ہوئے استاذ مرحوم سے کہا تھا کہ اگر آپ اصول پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے ساتھ سختی سے پیش نہیں آئے ہوتے تو میں آج جس مقام پہ ہوں ہرگز نہیں پہنچ پاتا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنے اصول کی پابندی میں میرے جذبات کو قربان تو ہونے دیا پر جامعہ کے اصول کو ٹھیس نہیں پہنچنے دیا!! میری باتیں سن کر استاذ مرحوم نے مسکراہٹوں کے تمغے سے مجھے نوازا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔

آج ہمارے استاذ محترم مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اب سے چوبیس گھنٹے پہلے ہم ان کے نام نامی اسم گرامی کے بعد حفظہ اللہ لکھا کرتے تھے مگر ابھی اس کی جگہ رحمہ اللہ لکھتے ہوئے یقین نہیں ہو رہا ہے اور انگلیاں تھر تھر کانپ رہی ہیں لیکن قدرت کا یہ ایسا اصول ہے جس سے نہ تو کسی نے بغاوت کی ہے اور نہ ہی بغاوت کوئی کر سکتا ہے۔ موت ہی ایک ایسی شیء ہے جہاں پہنچ کر سارے زمینی شاہوں کو آسمانی شہنشاہ نظر آتا ہے۔

آخر میں میں اپنے دوستوں اور طلبہ سے کہوں گا کہ اپنے استاتذہ کی قدر میں جتنا حصہ لے سکتے ہو‘ حصہ لو۔ کیونکہ یہ ایسے شجر ہیں جن کے بوڑھے سایے بھی فائدے سے خالی نہیں۔ آج میں عزم شاکری کا یہ شعر بہت دیر تک گنگناتا رہا ؂

آندھیوں سے بچا کر رکھو اپنے آنگن کا بوڑھا شجر

یہ شجر ہی اگر گر گیا تو پھر لوری سنائے گا کون؟!

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS