استقاط حمل اور سپرم کورٹ کا فیصلہ

0
www.dnaindia.com

جب کسی ایک جرم کے دفاع کی کوشش کی جاتی ہے تو مجرم کو جرم کا دوسراراستہ نہیں ملنا چاہیئے ورنہ مجرم اور جرم سبقت کے ساتھ آگے بڑھ جاتے ہیں اور جب کسی جرم کوانسانی حقوق میں شامل کیا جاتا ہے تو جرائم میں کمی نہیں بلکہ اضافہ کا سبب بن جاتا ہے ہمارے ملک ہندوستان میں خواتین کے معاشرتی حقوق ہو یا نجی معاملات اکثر وبیشتر مسائل کا شکار ہوتے رہتے ہیں جو بالآخر عدالت کے بابداخلہ تک پہنچ ہی جاتے ہیں اور پھر عدالت کے منصف کو جمہوری اندازمیں فیصلے بھی دینا پڑتا ہےابھی ملک کی عدالت اعظمی نے 29/ستمبر کوجسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں تین رکنی ججس کی بنچ نےایک تاریخی فیصلہ سنایاہے جسمیں عدالت ایک 25 سالہ غیر شادی شدہ خاتون کی عرضی کی سماعت کررہی تھی اس خاتون نے اپنی مرضی سے بنائے گئے جنسی تعلق کو 24 ہفتوں میں اسقاط حمل کرنے کی درخواست دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی تھی جسکو دہلی ہائی کورٹ نے خارج کردیا تھا بعد میں اس خاتون نے سپرم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر سپرم کورٹ کی بنچ نے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اسقاط حمل کےحق کا فیصلہ سنادیا ہےسپریم کورٹ نے میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگنسی (ایم ٹی پی) ایکٹ 2021میں ترمیم کی اور اسکی تشریح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ غیر شادی شدہ، بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین قانونی طور پر شادی شدہ خواتین کی طرح 24ہفتے تک کے جنین کے اسقاط حمل کرنے کی حقدار رہیں گی۔ 

 

سپرم کورٹ نے ازدواجی رشتے میں بھی جنسی ذیادتی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی جنسی ذیادتی کو بھی عصمت دری میں شامل کرتے ہوئے میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگنینسی ایکٹ میں شامل کیا جانا چاہیئے اگر ایک شادی شدہ خاتون کو لگتا ہیکہ اسکی مرضی کے بغیر حمل زبردستی ٹھرایا جارہا ہے تو وہ اپنی مرضی سے اسقاط حمل کرواسکتی ہے قبل ازیں سپرم کورٹ نے ہم جنس پرستی یعنی ایک ہی صنف کے دو بالغ لوگوں کے درمیان باہمی رضامندی سے جنسی تعلق کوجرم سے نکال کر جنسی تعلقات کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسکے علاوہ سپرم کورٹ نے غیر ازدواجی یعنی شادی شدہ مرد و خواتین کو اپنی مرضی سے جنسی تعلق قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا سپرم کورٹ کے یہ تاریخی فیصلے مغربی کلچر کی جانب بڑھتے قدم کی طرح ہے اسکے علاوہ اگر اس طرح سے انسانی حقوق کی آزادی کے نام پر فیصلے ہوتے ہیں تو بجائے جرائم میں کمی کے اضافہ کا سبب بنے گا نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 

ملک میں ہر چوتھا کیس عصمت ریزی کا ہوتا ہے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی 2021 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں عصمت دری کے 31,677 کیسس درج کیئے گئے جسکا اوسطاً یومیہ86 کیسس ہوتے ہیں یہی کیسس جو سال 2020میں 28,046 تھے جب کہ 2019 میں عصمت ریزی کے کل 32،033 کیسس درج کیئے گئے دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 67 فیصد اسقاط حمل غیر محفوظ ہوتے ہیں جو روزانہ تقریباً 8 اموات کا سبب بنتے ہیں ۔

 

اس رپورٹ کے حوالے بعد اندازہ کیجئے کہ جو آزادی اور حق حاصل نہ ہونے کے باوجوداسقاط حمل کی شرح فیصد میں جو اضافہ دیکھا جارہا ہے کیا وہ حق حاصل ہونے کے بعد اسقاط حمل کی شرح فیصد میں مزید اضافہ کا سبب بنے گا یا کمی کا؟انسانی حقوق کے تیئں اگر سماج کو اسطرح کی آزادی دی جائے گی تو جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جائے گا اور آہستہ آہستہ شادی اور ازدواجی زندگی کا تصور بھی ختم ہوتا جائے گا نوجوانوں کی بے راہ روی میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا جبکہ جو خواتین اسقاط حمل کی وجہ سے مسائل سے دوچار ہوکر مختلیف بیماریوں میں گھر کرپریشانیوں میں مبتلاء جاتی تھی یا تو اپنی جان گنوا دیتی تھی اب اس جرائم میں مزید اضافہ کے امکانات ہیں یہی نہیں بلکہ سماجی برائیوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گاتصور کیجئے اگر کوئی غیر شادی شدہ لڑکی اسقاط حمل کو اپنا حق مان کر اپنی مرضی سے کسی سے جنسی تعلق بناکر حاملہ ہوجاتی ہے تو اسکے بعد ہونے والے نقصانات کا زمہ دار کون ہوگا؟ایک توقانونی نوعیت سے اسکا حمل تو ساقط کردیا جائے گا لیکن کیا اسکوسماج میں قبول کیا جائے گا؟ دوسرے اسکی ازدواجی زندگی کیلئے کیا رکاوٹیں پیدانہیں ہونگی؟ تیسرے وہ ایک سماج کے اندر کیاعیب دار بن کر نہیں رہ جائے گی؟یہ سب ایک سماجی طریقہ کار ہے کیونکہ قانون اور سماج کے درمیان ایسے معاملات میں اخلاقی طور پر اختلاف کی جو خلاءہےوہ کبھی پر نہیں ہوسکتی اور نہ کسی بھی مذہب کا سماج اسکو قابل قبول درجہ تک پہنچا سکتا قانونی رو سے ایک لڑکی آزاد تو ہوسکتی ہے لیکن وہ جس سماج میں زندگی گذارتی ہے وہ اس چنگل سے آزاد ہرگز بھی نہیں ہوسکتی بلکہ وہ زہنی آزمائشوں اور نفسیاتی ہراسانی کا شکار ہوسکتی ہے بلکہ حتی الامکان یہ ممکن بھی ہیکہ وہ جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوکر اسکی زندگی تباہی کے دہانے تک پہنچ جائے گی ۔

 

جوغیر شادی شدہ خواتین پہلے اسقاط حمل چوری چھپے کرواتی تھی اب وہ اس قید سے آزاد ہوچکی ہیں اب تو وہ اپنی آزادی اور انسانی حق کاناجائز استعمال چھپے انداز سے نہیں بلکہ کھلے عام اس سے بھی بڑھکر اعلانیہ بھی کرسکتی ہے سوال یہ ہیکہ کیوں اس قانون کو آزاد ہندوستان کے 75 سال بعد نافذ کرنے کی ضرورت پیش آئی ؟حالانکہ ہماراملک اور اسکی عوام ان قانون کے اطلاق کے بغیر بھی ایسے گھناؤنےجرائم کے کم و بیش واقعات کے ساتھ قانونی گرفت کے تحت چل رہا تھا اورکسی بھی ملک میں جرائم کاپایا جانا ایک عام سی بات ہے لیکن جرائم کو حقوق میں شامل کرتے ہوئے آزادی دینا یہ سماج کیلئے بڑا سنگین معاملہ ہے کسی بھی جرائم کے مرتکب کو قانون کا جوخوف لاحق تھا جو اب نہیں رہے گا اب تو انھیں خود قانون کے چنگل سے آزاد کرکے جرائم کی کھلی آزادی فراہم کرنا جو چور کو چوری کرنے کی کھلی آزادی دینے کے مترادف ہوگا اسکے علاوہ فرض کیا جائے کہ اگر کسی خاتون کے حمل کے چھ تا سات ماہ گذر جائیں گے تب تو وہ اپنے حمل کو قانونی طور پرساقط نہیں کرواسکتی اور اس خاتون کی کوک میں پل رہا بچہ جب دنیا میں آنکھ کھولے گا تو کون اس بچہ کا زمہ دار ہوگا؟کون اسکا وارث ہوگا؟یا پھر بناء ازدواجی تعلق کے خاندان اور سماج اس بچہ کو قبول کرپائے گا؟یا پھر اس بچہ کی پیدائش کے بعد ماں باپ کو ازدواجی رشتہ میں باندھا جائےگا؟یہ سب وہ سوالات ہے جو اس ایک غلطی کے نتیجہ میں ایک خاندان میں مسائل کے انبار لگا سکتی ہے جس سے خاندان بکھرنے کا خدشہ لاحق رہے گا سوال یہ بھی ہیکہ جب ایک بچہ بناء ازدواجی رشتہ کے دنیا میں جنم لینے کے بعد کیا اس بچہ سے انسانی حق تلفی نہیں ہوگی؟حق تلفی تو ایک ماں کے پیٹ میں حمل کو ساقط کرنے سے بھی ہوجاتی ہے اگر ملک میں ایسے روز سینکڑوں حمل ساقط کیئے جائیں گے تو اندازہ کیجئے کہ 140 کروڑ کی آبادی والے ملک میں روز کتنے بچے اپنے جینے کےحق سے محروم ہوجائیں گے کیا یہ انسانی حقوق میں شامل نہیں ہے؟اگر ہم مذہب اسلام کی تعلیمات پر نظر ڈالتے ہیں تو قرآن کہتا ہے تم مفلسی کے ڈر کی وجہ سے اپنی اولاد کا قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور انھیں بھی یہ قرآن کا حوالہ اسلیئے دیا جارہا ہے کیونکہ عدالت اعظمی نے جس خاتون کے کیس کی سماعت کے دوران یہ فیصلہ سنایا اس خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے بچوں کی پرورش نہیں کرسکتی بہرحال اسطرح کی آزادی سےخواتین پر مظالم میں اضافہ ہوگا اور خمیازہ خود خواتین کو بھگتنا پڑے گا سماج پر اسکے منفی اثرات مرتب ہونگے لہذا عدالت اعظمی کو چاہیئے کہ وہ اپنے اس فیصلہ پر دوبارہ غور کریں تاکہ خواتین کےتحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

سید سرفراز احمد

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS