ملک کی امیج بچانے کا وقت

0

گلوبلائزیشن اور سوشل میڈیا کے اس دور میں دنیا سمٹ گئی ہے۔ایک علاقے میں اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو باقی علاقوں میں اس کی خبر منٹوں میں پہنچ جاتی ہے، اس پر تاثرات یا ردعمل آنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ سوچنا ٹھیک نہیں ہے کہ کسی مذموم واقعے کا دائرۂ اثر وسعت اختیار نہیں کرے گا۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی ملک کی مثبت امیج اسے کتنا فائدہ پہنچاتی ہے اور منفی امیج سے اسے کتنا نقصان ہوتا ہے تو سمجھنا یہ بھی ضروری ہے کہ کسی ملک کے لیے دفاعی طور پر مستحکم ہونے کے ساتھ اقتصادی طور پر مستحکم ہونے کی کیا اہمیت ہے، اقتصادی طور پر مستحکم ہونے میں مثبت امیج کیا رول ادا کرتی ہے، اس لیے ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھورام راجن کی باتوں کو ہوا میں نہیں اڑایا جانا چاہیے۔ راجن نے یوں ہی نہیں کہا ہے، ’دنیا میں ملک کی بن رہی ’’اقلیت مخالف‘‘ شبیہ ہندوستانی پروڈکٹس کے لیے بازار کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔‘ بات جب مذہب کی آتی ہے تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ متنازع خاکوں کی وجہ سے مسلم ممالک میں فرانس کے پروڈکٹس کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ اس کی مثال ہے۔ جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی کے موقع پر ہوئے تشدد کو ممکن ہے، کئی لوگوں نے ایک علاقے کا تشدد سمجھا ہو، بھلے ہی اس پر ملک عزیز کے کئی بڑے لیڈروں نے چپ رہنے میں ہی سیاسی مفاد کا تحفظ سمجھا ہو مگر 18 گرینڈ سلیم سنگلس جیتنے والی عظیم ٹینس کھلاڑی مارٹینا نوراتیلووا کا اس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھنا، ’یقینی طور پر یہ قابل قبول نہیں ہے۔‘ یہ بتاتا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی واقعے یا حادثے کو چھوٹا یا مقامی سمجھ کر نظرانداز کرنا ٹھیک نہیں۔ یہ خیال سرکاروں کو ہونا چاہیے کہ کہیں چھوٹے چھوٹے واقعے ہمارے ملک کی امیج تو خراب نہیں کر رہے ہیں۔ عدالتیں کئی معاملوں میں از خود نوٹس لے لیتی ہیں، مذموم واقعات پر بھی وہ ایسا کر سکتی ہیں، کیونکہ عام لوگوں کی آخری امید عدالتیں ہی ہوتی ہیں، یہ امید بھی اگر معدوم ہونے لگے گی تو پھر مایوسی پھیلے گی اور پھیلتی ہوئی مایوسی کسی ملک کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔
کبھی رام نومی کے موقع کو گنگا جمنی تہذیب کے اظہار کا موقع سمجھا جاتا تھا، اس لیے اس موقع پر کئی شہروں میں فسادات کا ہونا باعث تشویش ہے۔ فساد کن لوگوں نے کیا، یہ سوال اہمیت کا حامل ہے مگر اہمیت کا حامل یہ سوال بھی ہے کہ نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے پابند عہد پولیس کی موجودگی میں فسادات کیسے ہوئے۔ رگھو رام راجن کی اس بات سے عدم اتفاق کی گنجائش نہیں ہے کہ ’بھارت کی ایسی امیج بننے کی وجہ سے غیر ملکی حکومتیںملک پر اعتماد کرنے میں جھجک محسوس کرسکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سرمایہ کار آپ کو ایک بااعتماد پارٹنر کی شکل میں نہ دیکھیں۔‘جدوجہد کی جانی چاہیے کہ ایسا نہ ہو، کیونکہ ایسا ہونا اس وقت ٹھیک نہیں جب یوکرین جنگ پر دنیا بٹی ہوئی ہے، یہ پتہ نہیں کہعالمی اقتصادیات پر جنگ کے کیا اثرات پڑیں گے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے یہ مانا ہے کہ ’بین الاقوامی سطح پر ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے پیش نظر عالمی معیشت کی ترقی کی شرح میں کچھ سست روی ہوسکتی ہے۔‘ ٹھیک ہے کہ 25 مارچ، 2022 تک ملک کے پاس 617.648 ارب ڈالر کا زرمبادلہ تھا، زیادہ زرمبادلہ کے معاملے میں وہ چوتھے نمبر پر ہے، اس کا ایکسپورٹ بھی بڑھا ہے، 2021-22 میں اس کا ایکسپورٹ 419.654 ارب ڈالر کا رہا ہے مگر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ اس کا امپورٹ بھی کافی بڑھ گیا ہے۔ 2021-22 میں امپورٹ 611.894 ارب ڈالر رہا۔ ملک کا حکومتی قرض جی ڈی پی کے 86 فیصد سے زیادہ ہوچکا ہے۔ فی کس آمدنی کے معاملے میں بنگلہ دیش نے ہمارے ملک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس پر یہ کہخرچ آمدنی سے کہیں زیادہ ہے، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مفلسی اور مہنگائی ملک کے لیے بڑے مسئلے بن چکی ہیں۔ ایسی صورت میں بھلے ہی کوئی ایک طرف خود کو راشٹر بھکت کہے اور دوسری طرف تشدد پھیلانے والی باتیں بھی کرے مگر اصل محب وطن وہی کہلائے گا جو ملک کے لوگوں کو جوڑنے والی باتیں کرے، اپنے قول و عمل سے یہ بتائے کہ یہ وہی ہندوستان ہے جہاں برسہا برس سے مختلف مذہبوں، ذاتوں، تہذیبوں، زبانوں کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں، انہیں ایک دوسرے سے کبھی خطرہ محسوس نہیں ہوا تو آج کوئی ایسی بات نہیں ہوگئی ہے کہ وہ ایسا محسوس کریں، البتہ لوگوں کے میل جول سے اگر کچھ سیاسی پارٹیوں کو اپنی بقا خطرے میں محسوس ہونے لگتی ہے تو بات الگ ہیمگر وقت کا تقاضا ہے کہ عام لوگ سیاسی شعبدہ بازیوں کو سمجھتے ہوئے سماجی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔ ملک اور ماں کا حق ادا کرنے کے لیے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ اطمینان ہی کافی ہوتا ہے کہ ہمارا عمل ہمارے ملک کی شبیہ مسخ کرنے کی وجہ نہیں بن رہا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS