نظام انصاف اور عام آدمی کا اعتماد

0

صبیح احمد

ریپ جیسے انتہائی گھناؤنے واقعات پر روک لگانے کیلئے برسوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ زانی کو موت کی سزا دی جانی چاہیے۔ یقینا ایسی مذموم حرکت کے مجرم کو سزائے موت ضرور ملنی چاہیے اور نربھیا معاملے کے بعد زانی کو پھانسی تک دینے کا التزام کیا گیا ہے لیکن ماورائے عدالت قتل کی اجازت قانون و انصاف کے تقاضوں کو ہرگز پوری نہیں کرتی۔ اس حوالے سے فوری کارروائی کے تحت اتنی جلد بازی سے بھی کام نہیں لینا چاہیے کہ اصل مجرم کے تعین کا موقع بھی نہ ملے اور جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے کسی بے قصور کو سزا دے دی جائے۔ اس بات کا ہر حال میں خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ ریپ کے مجرمین کو سزائے موت دینا اور ماورائے عدالت قتل 2 الگ الگ چیزیں ہیں۔ انصاف کے کم از کم پیمانے پر کھرا اترنے کیلئے اس کا تعین تو کرنا ہی چاہیے کہ سزا اصل مجرم کو ہی ملے، کسی بے قصور اور معصوم شخص کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔
ابھی کئی روز قبل تلنگانہ میں ریپ کے ایک مشتبہ ملزم کی لاش ریلوے ٹریک پر ملی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس شخص نے ٹرین کے سامنے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی لیکن 30 سالہ مشتبہ ملزم کے اہل خانہ اور حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے بعض کارکنوں کا پولیس پر الزام ہے کہ انہوں نے اس شخص کو ’جعلی مقابلہ‘ (فرضی انکائونٹر) میں مارا ہے۔ متاثرہ بچی اپنے گھر سے لاپتہ ہوگئی تھی اور اس کی لاش چند گھنٹے بعد ملزم کے گھر سے ملی تھی جو اس کا پڑوسی تھا۔ پوسٹ مارٹم میں ریپ اور گلا گھونٹنے کی وجہ سے موت کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس مذموم فعل کے بعد ریاست میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا جس میں سماج کے مختلف طبقہ سے تعلق رکھنے والے شہری بچی کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ سوشل میڈیا پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ اس دوران کچھ لوگوں نے ملزم کے ’انکاؤنٹر‘ کا مطالبہ بھی کیا جو کہ ماورائے عدالت قتل کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی نظام کی سست رفتار سے مایوس ہیں کیونکہ عدالتوں سے انصاف کی فراہمی میں کئی برس حتیٰ کہ کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حیدرآباد کی پولیس پر ریپ کے معاملے میں فوری انصاف دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔ دسمبر 2019 میں سٹی پولیس نے ایک 27 سالہ خاتون ویٹرنری ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے شبہ میں 4 افراد کو گولی مار دی تھی۔ یہ افراد پولیس کی حراست میں تھے اور انہیں واپس جائے واقعہ پر لے جایا گیا جہاں انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس معاملے میں پولیس نے بتایا کہ مشتبہ افراد کو اس وقت گولی ماری گئی جب انہوں نے افسران کی بندوقیںچھیننے اور فرار ہونے کی کوشش کی لیکن انسانی حقوق کے گروپ پولیس کے مؤقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ماورائے عدالت قتل ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس مبینہ پولیس مقابلہ کو ’ہجوم کے ہاتھوں انصاف کا قتل‘ قرار دیا ہے۔ کیا یہ نظام انصاف کی ناکامی کا عکاس نہیں ہے؟ ملزمین کی ہلاکت کے بعد یہ کبھی پتہ نہیں چل سکے گا کہ ملزمین نے واقعی جرم کا ارتکاب کیا تھا یا نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سڑکوں کو قتل کے میدانوں میں بدل کر ریپ کے واقعات کو روکا جا سکتاہے؟ دسمبر 2019 میں پولیس نے ریپ کے مشتبہ 4 افراد کو گولی مار کر ایک مثال قائم کی لیکن کیا اس سے جنسی حملوں کو روکنے میں مدد ملی؟ اگر ریپ اور قتل کے مقدمات میں ملزمان کو مارنے سے انصاف مل سکتا ہے تو کیا انصاف کی انتہا سڑکوں پر قتل سے ہوگی یا ان کی مناسب تفتیش اور مقدمہ کی سماعت کی جانی چاہیے؟ پولیس آسان راستہ اختیار کرتی ہے جس سے اسے مناسب تفتیش کرنے یا مضبوط کیس بنانے کی ضرورت نہیں رہتی ہے لیکن انصاف تب ہوتا ہے جب ہر معاملہ میں مکمل اور منصفانہ تفتیش ہو۔ دراصل ماورائے عدالت قتل کا یہ سلسلہ ریپ متاثرہ خواتین کو انصاف دلانے کے نام پر ایک اور اس سے بھی بڑا مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔
حقائق بہت ہی مایوس کن ہیں۔ ریپ کے خلاف سخت قوانین بنانے اور فاسٹ ٹریک عدالتوں کے قیام کے باوجود ملک میں خواتین کے خلاف جرائم اورریپ کی وارداتوں میں کمی نہیں آئی ہے۔ ریپ جیسے سنگین جرم میں انصاف کی فراہمی میں طویل تاخیر کے سبب لوگوں کا نظام انصاف سے اعتماد شاید اٹھنے لگا ہے۔ لوگ اب ہجوم کے ہاتھوں انصاف کی طرف مائل ہونے لگے ہیں۔ بہرحال قانون کی بالا دستی جمہوری نظام کا ایک بنیادی پہلو ہے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا یا ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور ہلاکت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ریپ اور قتل کے یہ واقعات ملک کے نظام انصاف کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔ سنگین جرائم کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تفتیشی اداروں اور عدلیہ کو بہت مؤثر طریقے سے اپنا کردارادا کرنا ہو گا تاکہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچ سکے کہ قانون کی بالادستی کا قطعی احترام لازم ہے۔

قانونی نظام کے ’بھارتیہ کرن‘ سے جسٹس رمن کی مراد ہمارے سماج کے عملی حقائق کو قبول کرنے اور ہمارے انصاف دینے کے نظام کو مقامی رنگ دینے کی ضرورت سے ہے۔ مثال کے لیے کسی گاؤں کے خاندانی تنازع میں الجھے فریق عدالت میں عام طور پر ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے کہ ان کے لیے وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے، وہ دلیلیں نہیں سمجھ پاتے جو زیادہ تر انگریزی میں ہوتی ہیں۔ متعلقہ فریق کو عدالتی فیصلہ یا حکم بخوبی سمجھ میں آنا چاہیے۔

آخر مسئلہ کا حل کیا ہے؟ ہندوستان کے قانونی نظام میں مقامی حالات اور ضرورتوں کے مطابق اصلاح کی سخت ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ نظام انصاف کو مزید سہل اور مؤثر بنانے کی سمت میں قدم اٹھانا ضروری ہے۔ موجودہ نظام اور عدالتی طرز عمل نوآبادیاتی ہیں۔ بہرحال ہمارے عدالتی نظام کو مزید بہتربنانے کے لیے اس بنیادی ضرورت کو چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمن نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ انہوں نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے، اس حوالے سے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے ہندوستان کے قانونی نظام کے ’بھارتیہ کرن‘ کی بات کہی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نظام انصاف کو اور زیادہ آسان اور مؤثر بنانا ضروری ہے۔ قانونی نظام کے ’بھارتیہ کرن‘ سے جسٹس رمن کی مراد ہمارے سماج کے عملی حقائق کو قبول کرنے اور ہمارے انصاف دینے کے نظام کو مقامی رنگ دینے کی ضرورت سے ہے۔ مثال کے لیے کسی گائوں کے خاندانی تنازع میں الجھے فریق عدالت میں عام طور پر ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے کہ ان کے لیے وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے، وہ دلائل نہیں سمجھ پاتے، جو زیادہ تر انگریزی میں ہوتے ہیں۔ متعلقہ فریق کو عدالتی فیصلہ یا حکم بخوبی سمجھ میں آنا چاہیے۔
اس کے علاوہ کورٹ کچہری کے بار بار چکر لگانے سے جو پریشانیاں اور بے تحاشہ اخراجات ہوتے ہیں، عدلیہ کے حوالے سے عام آدمی کی مایوسی میں اس کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ عام آدمی کوججوں یا عدالتوں کا خوف محسوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے یہاں سچ بولنے کی ہمت ملنی چاہیے جس کے لیے خوشگوار ماحول بنانے کی ذمہ داری وکلا اور ججوں کی ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کا ایک بہت بڑا مسئلہ زیر التوا معاملوں کا بھی ہے۔ تاریخ پر تاریخ دینے کے رجحان نے اس مسئلہ کو اور سنگین بنا دیا ہے۔ اس کا بھی سپریم کورٹ نے حال ہی میں سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ دہرادون کی ایک نچلی عدالت کے ذریعہ دیے گئے 78 التوا سے ناراض سپریم کورٹ نے دھوکہ دہی اور جعل سازی کے 2014 کے ایک معاملہ میں 6 مہینے کے اندر سماعت پوری کرنے کی ہدایت دی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ نچلی عدالت تقریباً 7 سال پہلے نوٹس لینے اور 78 التوا کے باوجود اس معاملے پر ذرا بھی آگے نہیں بڑھی۔ 28 جون 2014 سے 15 اکتوبر 2020 کے درمیان معاملے پر سماعت کے لیے 78 تاریخیں دی گئیں لیکن دفاعی فریقوں کے خلاف الزام تک طے نہیں کیے گئے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS