نامعلوم پراسرار بخار

0

کورونا وائرس سے لڑرہے ملک کے مختلف حصوں سے نامعلو م بخار کی خبریں تواتر سے موصول ہو رہی ہیں۔ خاص طور سے اترپردیش، بہار اور مغربی بنگال میں اس بخار نے یلغار کر رکھی ہے۔ غیر کورونائی مشتبہ علامت والے اس پراسرار بخار کے شکار زیادہ تر بچے ہی ہورہے ہیں۔لوگوں میں یہ خدشہ ہے کہ کہیں یہ کوروناکی تیسری لہر نہ ہو کیوں کہ د و مہینے قبل تک یہ خدشہ ظاہر کیاجارہاتھا کہ ستمبر کے وسط میں کورونا کی تیسری لہر آنے والی ہے اور اس میں سب سے زیادہ خطرات بچوں کو ہی پیش آئیںگے جس کی وجہ سے والدین میں سخت خو ف وہراس ہے۔
ہر چند کہ ماہرین تیسری لہر کی تردید کررہے ہیں لیکن جس سرعت کے ساتھ یہ نامعلوم بخار ملک کے مختلف حصوں میں بچوں کو متاثر کررہاہے، وہ تشویش ناک ہے۔اترپردیش میں اس بخار کی وجہ سے اب تک200سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ اس ریاست کے فیروزآباد میں تو بخار جیسی علامت والی بیماری کے شکار بچوں کے ساتھ ساتھ جوان اور ادھیڑ عمر کے افراد بھی ہوئے ہیں۔114 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں اور 12ہزار افراد اس سے متاثر بتائے گئے ہیں۔ اترپردیش کے ہی متھرا میں 5ہزار افراد میں اس پراسرار بخار کی علامات پائی گئی ہیں اور یہاں بھی درجنوں ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ بہار میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔کولکاتا اور اس سے متصل اضلاع میں حالت قدرے بہتر ہے لیکن مغربی بنگال کے شمالی اضلاع میں تو یہ بخار بچوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔ایک درجن بچے ہلاک ہوچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بچے اسپتالوں میں داخل ہیں۔ خاص کر مالدہ، مرشدآباد، جلپائی گوڑی، کو چ بہار، علی پور دوار وغیرہ اضلاع اس بخار کی گرفت میں ہیں اورمتاثر ہونے والے بچوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہی ہو تا جارہاہے۔ اسپتالوں میں جگہ نہیں بچی ہے اور صحت کا انفرااسٹرکچر بیمار بچوں کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ان سب وجوہات کی بنا پر پورے شمالی بنگال میں خوف وہراس کا ماحول ہے۔
بارش کے مہینوں میں نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار کا ہوجا نا عام سی بات ہے۔کچھ برسوں سے یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اس موسم میں ڈینگی، ملیریا اور ڈائریا بھی اپنے پر پھیلاتے ہیں لیکن یہ بخار ان سب سے الگ ہٹ کر ہے اس کی کوئی قابل شناخت علامت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تشخیص اور علاج میں بھی دشواری ہورہی ہے۔ مغربی بنگال حکومت نے اس بخار کی وجہ دریافت کرنے کیلئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو بخار کے مریضوں سے نمونے لے کر ان کی جانچ کررہی ہے۔اب ماہرین کی یہ کمیٹی کس نتیجہ پر پہنچنے والی ہے، اس کا تو اندازہ نہیں ہے لیکن یہ بات حتمی ہے کہ نامعلوم بخار اوراس کے ساتھ ہی ڈینگو اور ملیریا سے نمٹنے کیلئے حکومت نے پہلے سے کوئی اقدامات نہیں کیے تھے۔اترپردیش اور بہار کاصحت نظام تو جگ ظاہر ہے، مغربی بنگال میں بھی محکمہ صحت نے ان موسمی بیماریوں سے نمٹنے کے اقدامات میں مجرمانہ کوتاہی برتی ہے۔ہر مانسون میں ڈینگو اور ملیریا بخار سے نمٹنے کیلئے مچھر کالاروا ختم کرنے کے کام کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن بڑھتی بیماریاں اس دعویٰ کی حقیقت کی پول کھول دیتی ہیں۔
ماہرین نے جب کورونا کی تیسری لہر کی پیش گوئی کے ساتھ بچوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیاتھا تو بچوں کے تحفظ کیلئے اسی وقت سے کام شروع کردیاجاناچاہیے تھا لیکن حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر کی وجہ سے ماسوا تمل ناڈوکسی بھی ریاست میں مچھروں کا لاروا ختم کرنے کا کام کیا ہی نہیں گیا۔ مغربی بنگال میں تو اسمبلی انتخاب کی وجہ سے بھی اس کام کو نظر انداز کردیاگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈینگو اور ملیریا، آرایس وائرس، انفلو ئنزا، اسکرب ٹائفس، سوائن فلو کے ساتھ ساتھ اس نامعلوم بخار نے بھی لوگوں کو اپنا شکار بناناشروع کردیا ہے۔اس معاملہ میں تمل ناڈو نے بہرحال کچھ بہت اقدامات کیے ہیں۔ وہاں مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر قابو پانے کیلئے کامیابی سے کام ہو رہا ہے۔تمل ناڈو میں مچھروں کا لاروا تباہ کرنے کیلئے ڈرون کا استعمال کرنے کے ساتھ ہی ہر گھر میں ذخیرہ شدہ پانی کو تلاش کرنے کیلئے تربیت یافتہ عملہ تعینات کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں اس بار نہ تو موسمی بیماریوں کا وہ زور ہے اور نہ ہی وہاں سے نامعلوم پراسرار بخار کی خبریں آئی ہیں۔
ماہرین پہلے بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بیماریوں کا کرداراورا ن کی نوعیت بدل رہی ہے۔جن جگہوں پر مچھروں کا لارواپنپنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے، وہاں طرح طرح کی بیماریاں سامنے آتی ہیں۔ نامعلوم اور پراسرار بخارکو بھی اسی ذیل میں سمجھنا چاہیے اوراس سے بچائو کیلئے لازمی ہے کہ ریاست تمل ناڈو سے سبق لیتے ہوئے ملک کی تمام ریاستوں میں جنگی پیمانہ پر یہ کام کیاجائے۔اس کے ساتھ ہی ملک گیر سطح پر ایک ایسی ہیلتھ فورس بھی بنائی جائے جو سال بھر مختلف موسمی بیماریوں کے کنٹرول اور بچوں کو ان سے محفوظ رکھنے کا کام کرسکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS