انسانیت کی خدمت سب سے بڑا دھرم

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

کائنات میں انسانی تخلیق اور اس کے وجود سے جہاں اس روئے زمین کی چمک دمک اور رونق باقی ہے، وہیں دوسری طرف ہمیں باہمی اخوت و محبت اور وفاداری کے تقاضوں کو پورا کرنے کا بھی بہترین موقع ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے کے اپنے اصول و آداب ہوتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانیت اور تعمیر و ترقی کا زاویہ یا نظریہ ہمیں مذہب سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ مذہب کوئی بھی ہو، مذہب مذہب ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ مذہب اپنے متبعین کو کبھی بھی غیر متوازن یا بدکرداری کی دعوت نہیں دیتا ہے بلکہ وہ انسانی سماج کے اندر پیوست آلائشوں کو نکال کر سماج کو پاکیزہ بنانے کا کام کرتا ہے۔ سماج کو عدل وانصاف اور رواداری جیسی صفات کا حامل بناتاہے۔ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم بحیثیت انسان مذہب کو مذہب ہی سمجھیں، اس کا احترام ملحوظ خاطر رہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ مذہب کے درست استعمال اور اس کے صحیح عمل دخل سے معاشرے کو امن و سکون اور روحانیت و تربیت کا مرکز و محور بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے اندر انسانی حقوق اور عوامی فلاح وبہبود کا جذبہ موجزن بڑی آ سانی سے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جو معاشرے مذہب و دھرم کو اپنی نجات کا ذریعہ تصور کرتے ہیں وہ آ ج بھی پرامن و خوشحال ہیں۔ ان معاشروں کا الگ مقام و رتبہ ہے۔ البتہ جب مذہب کو جذبات سے کھلواڑ کرنے یا جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو پھر اس کے نتائج ہمیشہ مایوس کن ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے مذہب کے مثبت کردار پر عمل کرنا قوموں اور معاشروں کے تحفظ کے لیے لازمی ہے۔ آج عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ خواہ اس کا تعلق مذہب سے ہو یا سیاست سے ،دونوں مذہب اور اس کی اقدار کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یاد رکھئے جب عوام پر مذہبی نشہ غالب آجاتاہے تو پھر ان کے افکار و خیالات پوری طرح مفلوج ہوجاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے اور غور وفکر کرنے کی استعداد ماند پڑجاتی ہے۔ آج ہندوستان کی بھی صورت حال کچھ اسی طرح کی ہے، یہاں عوام کے مذہبی جذبات کو جس قدر برانگیختہ کیا گیا ہے وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام میں بیداری یا حکومت سے کسی بھی طرح کا سوال کرنے کی ہمت تک نہیں بچی ہے۔ پوری طرح مذہبی نشہ میں لت پت ہیں، ان کو موجودہ حکومت کا ہر کام درست نظر آتا ہے۔ اس لیے ہندوستان کے استحکام اور یہاں کے عوام کے حقوق کی بازیافت کے لیے عوام کے مذہبی نشہ کا خمار اتارنا ہوگا جو انہیں متعدد طریقوں سے پلایا جا چکا ہے۔
ماہرین و مفکرین کی بات مانیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کو کمزور کرنے اور اس کی عقل و خرد پر تسلط حاصل کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو ابھار نا کافی ہوتا ہے۔ یہ سچ بھی ہے کہ مذہب کے آگے کوئی بھی انسان پوری طرح لاچار ہوجاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق کو کھنگالنے کے بعد یہ حقیقت طشت ازبام ہوتی ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتوں یا مذہبی رہنماؤں نے مذہب کا استعمال محدود مفادات کے لیے کیا ہے تو وہ قومیں ظالم و جابر حکمرانوں کے ظلم و تعدی کا شکار ہوئی ہیں۔ ان کے وجود تک کو تہہ وبالا کردیا گیا ہے۔ آ ج کا المیہ یہ ہے کہ ہم مذہب کی باتیں بھی کرتے ہیں، مذہب پر لیکچرز بھی خوب دیتے ہیں، اسی کے ساتھ کتابیں بھی لکھ رہے ہیں مگر مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کو ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے معاشرے میں آ ئے دن دیکھنے کو ملتی رہتی ہے۔اس لیے ہمیں ان چیزوں سے نہ صرف خود بچنا ہے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی محفوظ رکھنا ہے جو ملت کو مذہب یا جذبات کے نام پر دگرگوں کرے۔
آ ج ہمارا سماج جہاں کھڑا ہے وہ افسوسناک ہے۔ انسانی جانوں کے ضیا ع کا پیہم سلسلہ جاری ہے۔ ہر طرف ماتم ہی ماتم ہے۔ آہ و بکا اور چیخ و پکار نے ملک کے حالات کو غمگین بنادیا ہے۔ ایسے میں نفرت و تشدد اور تعصب و تعدی کے سوداگروں پر کچھ انسانیت نواز لوگوں نے ان کے منھ پر کالک پوتنے کا کام کیا ہے۔ وہ یہ کہ کئی مقامات پر جب غیرمسلم کے اقربا نے اپنے مردے کی تجہیز و تکفین یا آ خری رسومات ادا کرنے سے ہاتھ کھڑے کرلیے تو محلے کے مسلمانوں نے اپنے ہندو بھائی کی تمام آ خری رسومات ادا کیں۔ اسی طرح ملک کے کئی حصوں میں(خیر سگالی کے جذبہ کو جو کہ اسلام کی روح اور مزاج ہے) مسجدوں کو کووڈ اسپتال بنایا گیا ہے۔ یہ پیغام ان لوگوں کو شاید اچھا نہ لگے جو آئے دن نفرت کی ہی بات کرتے ہیں۔ لیکن ملک کی اکثریت کے لیے یہ خبریں اطمینان کا باعث ثابت ہوں گی۔ وہ جانتے ہیں انسانیت کا تحفظ اور اس کے حقوق کی حفاظت سب سے اہم چیز ہے۔ آ ج جن لوگوں کو مذہب و دھرم کی افیم چٹا ئی گئی ہے، اگر ان کو انسانیت کا درس دیا جاتا، باہمی اعتماد و ارتباط اور امداد کی فضیلت و اہمیت سے واقف کرایا جاتا تو شاید ملک میں آ ج یہ نوبت نہ آ تی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مذہب پر عمل کرنے کو کوئی منع نہیں کرتا ہے بلکہ یہ تو اچھی بات ہے کہ مذہب پر عمل کیا جائے لیکن قباحت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مذہب کے نام پر اقتدار و تسلط پر قبضہ حاصل کرتے ہیں۔ عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں۔ حقیقی مذہبی ہونا اور بات ہے اور مذہب کے نام پر گندی سیاست کرنا عوام کے جذبات کو مشتعل کرنا دوسری بات ہے۔
آ ج جس قدر انسانی خدمت، بقائے باہم جیسی روایات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،وہیں ہمیں اس بات کو بھی عام کرنا ہوگا کہ ان سیاسی یا نیم سیاسی جماعتوں سے اور ان کے ایجنڈوں سے دور رہنا ہے جو مذہب کا استعمال باطل طریقے سے کرتے ہیں۔ عوام کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر ان کی آ زادی کو سلب کر رہے ہیں۔ یاد رکھئے انسانیت کو زندہ رکھنے اور اس کی تمام بنیادی ضروریات کی تکمیل کرنا ہر صاحب استطاعت شخص پر فرض ہے۔ لہٰذا مصیبت کے اس وقت میں مذہب و دھرم اور ذات بات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خاطر باہم مدد کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ مذہب کا غلط استعمال انسان کو کوتاہ نظر اور تنگ دست جیسی مکروہ چیزوں کا عادی بناتا ہے۔ ایک اچھا سماج وہی ہوتا ہے جس کے اندر انسانی حقوق اور سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کو اختیار کیا جاتاہے۔ اونچ نیچ اور بھیدبھاؤ سے سماج میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS