کورونا : ضروری مفاہمت و اندرون خانہ تدابیر

0

ڈاکٹر سید ظفر محمود

کورونا وائرس میں مرض پیدا کرنے کی ایسی اہلیت ہے، جس کو برداشت کرنے کے لیے انسانی جسم میں فطری قوت مدافعت (Immunity) عموماًنہیں ہے، اس سے بہت زیادہ انسانی نقصان ہوچکا ہے، اب اس سے بچائو کے لیے تن من دھن سے لگنے میں عقلمندی ہے، اس کی روک تھام بھی کی جانی چاہیے۔یاد رہے ہمیں اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر نظر رکھنی ہے۔بخار کئی دنوں تک نہیں رہنا چاہیے، اس کے لیے دن میں ایک پیراسیٹامول (Paracetamol) ٹیبلٹ کھانی ہے اور کپڑا بھگو کے اور نچوڑ کے ماتھے، ہاتھوں اور پیروں پر رکھنا ہے۔ منھ کا ذائقہ خراب رہے پھر بھی غذا جسم میں جاتی رہنی ہے تا کہ کمزوری زیادہ نہ ہو۔ آکسیجن کا لیول مانیٹر کرنے کے لیے کیمسٹ کے یہاں سے آکسیمیٹر (Oxymeter) خرید لیجیے، پہلے سستا تھا اب دو ہزار روپے تک کا ملنے لگا ہے۔یہ چھوٹا سا آلہ ہوتا ہے، ایک ہاتھ سے آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے۔اس میں اپنی شہادت کی انگلی ڈال کے ایک منٹ تک روک کے اپنا آکسیجن لیول چیک کیا جا سکتا ہے۔ دن میں تین چار دفعہ کرنا ہے، ریڈنگ کو نوٹ کرتے رہنا ہے اور اس کا چارٹ بناکر کوالیفاٹڈ فیملی ڈاکٹر سے فون پر گفتگو کرتے رہنا ہے۔ پے ٹی ایم یا گوگل پے کے ذریعہ ڈاکٹر کی فیس ادا کی جا سکتی ہے۔ اگر آکسیجن لیول 96 اور100 کے درمیان رہتا ہے تو ٹھیک ہے، لیکن 95 یا اس سے کم ہونے پر توجہ درکار ہے۔
پوری دنیا کے ڈاکٹر اور سائنٹسٹ کہتے ہیں کہ اوندھے لیٹ کر سانس لینے سے پھیپھڑوں میں آکسیجن زیادہ جاتی ہے، لیکن اس حالت میں پیٹ بستر یا زمین پر ٹکا ہوا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا آسان طریقہ ہے، سینے اور جانگھوں کے نیچے تکیے لگا دیجئے، اس طرح پیٹ فری رہے گا۔ دونوں ہاتھوں کو ملا کے بستر یا زمین پر رکھ کے ان پر ماتھے کو ٹکایا جاسکتا ہے۔ اس طرح لیٹنے کو انگریزی میں پروننگ (Proning)کہتے ہیں۔ جتنی دیر تک لیٹا جاسکے لیٹنا چاہیے، بہتر ہے ایک گھنٹے تک یا اس سے زیادہ۔ پھر داہنی کروٹ لے کر تھوڑی دیر لیٹے رہیے۔پھر اٹھ کر بستر یا زمین پر تھوڑی دیر کے لیے سیدھے بیٹھ جائیے اور پیروں کو سامنے پھیلا کر رکھئے۔ امریکہ کے صوبہ فلوریڈا میں مقیم ڈاکٹر احمد رفاعی کا کہنا ہے کہ پروننگ کرنے میں گھٹنوں کو موڑ کر زمین پر ٹیک دینا چاہیے، ظاہر ہے کہ اس حال میں تو پیٹ خود ہی زمین سے کافی دور رہے گا، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس پروننگ کے دوران دو تین دفعہ قصداً کھانسنا بھی چاہیے۔اس پس منظر میں آئیے ذرا غور کریں پانچ وقت کی نمازوں میں کم از کم 64 سجدوں کی کیفیت پر۔ انسان جب عام طور پر سانس لیتا ہے تو اس کے اندر جانے والی آکسیجن کا دو تہائی حصہ باہر واپس نکلتا ہے،پھیپھڑے کی ایک تہائی وسعت کے مطابق ہوا اندر ہی رہتی ہے۔لیکن سجدے کے دوران معدے کے اندر آنتیں پردہ شکم یا ڈائیفرام(Diaphragm) کو دباتی ہیں اور ڈائیفرام پھیپھڑے کے نیچے والے حصہ کو دباتا ہے جس کی وجہ سے وہ بچی ہوئی ایک تہائی ہوا بھی باہر چلی جاتی ہے، اس طور پر پھیپھڑے کی بلکہ جسم میں سانس لینے کے پورے سسٹم کی مضبوطی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اورنمونیا اور پھیپھڑے سے متعلق دیگر بیماریوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ ساتھ ہی روحانی طور پر سجدے کے دوران بندہ چاہے تو اس کو کچھ اسی نوعیت کا احساس ہوسکتا ہے جیسا حضور اقدس ؐ کودوران معراج ہوا تھا۔سجدہ کے دوران بندہ اپنے کو بلاشرکت غیرے اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے اپنے کو سونپ دیتا ہے، اس کی دی ہوئی نعمتوں کے لیے اس کی تعریف کرتا ہے اور دیگر عنایات کے لیے دعا کرتا ہے۔ سجدے کے دوران دماغ کے مقابلہ میںدل اونچائی پر ہوتا ہے لہٰذا بندہ عقل کو بالائے طاق رکھ کر صرف عشق الٰہی میں مگن رہتا ہے۔قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان ناکافی ہیں اس کی ربوبیت کو اپنے میں سما لینے کے لیے لیکن میرے پسندیدہ بندہ کا دل اس کام کے لیے کافی ہے۔
ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں کورونا سے متاثر لوگوں کی تعدادمیں روزانہ اضافہ کا ہندسہ 3,50,000 پار کر چکا ہے، مہاماری کے ماہرین کے مطابق یہ ہندسہ جلد پانچ لاکھ تک پہنچ جائے گا۔ ملک میں روز کورونا سے تین ہزار سے زیادہ افراد فوت ہورہے ہیں۔مرکزی و صوبائی تعلیمی بورڈوں نے امتحان و یوپی ایس سی نے سول سروسز کے انٹرویو ملتوی کر دیے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو محتاط رہنا ہے۔جو ہوا سانس کے ذریعہ ہمارے پھیپھڑوں میں جاتی ہے، اس میںآکسیجن 21 فیصد ہوتی ہے لیکن کورونا کے مریض کو اس سے زیادہ تناسب میں آکسیجن چاہیے ہوتی ہے، اس لیے اسے پلانٹ سے بن کر آئے ہوئے سلنڈر سے آکسیجن دینی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں آکسیجن کنسنٹریٹر مشینیں بھی مل رہی ہیں۔ سکھوںکے ذریعہ خالسہ ایڈ(Khalsa Aid)سے 9115609005 پررابطہ کیا جا سکتا ہے۔الحمدللہ ہم ہندوستانیوں کی بڑی تعداد ابھی تک اس موذی مرض سے بچی ہوئی ہے لیکن زیاہ تر لوگوں کا ابھی ویکسینیشن (Vaccination) نہیں ہوا ہے۔یہ درست نہیں ہے بلکہ مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔کچھ لوگوں کا بھرم ہے کہ ویکسین سے نقصانات ہو سکتے ہیں۔دنیا میں ایسی کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے جس سے اس افواہ کی تصدیق ہو، اس کے علاوہ دنیا میں کوئی انجکشن، ویکسینیشن، ٹیبلیٹ، سیرپ وغیرہ آج تک ایسا بنا ہی نہیں جس کے کچھ نہ کچھ نقصانات نہ ہوں، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی دوا سے کتنے فیصد فائدہ ہے اور اس کی وجہ سے کتنی مہلک بیماریوں سے انسانیت محفوظ رہ سکتی ہے۔ امریکہ میں مقیم ہندوستانی ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں ملنے والی دونوں ویکسین یعنی کووی شیلڈ اور کوویکسین (Covishield & Covaxin)کی تاثیر بہت عمدہ ہے، ان سے کورونا بیماری سے بچائو ہو تا ہے اورویکسین شدہ افراد دیگر موذی انفیکشن سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ پہلے سے بیماریوں سے گھرے ہوں انھیں ویکسینیشن جلدی کروا لینی چاہیے۔
اگر ویکسین لگنے کے بعد بھی ایک آدھ فیصد لوگوں کو بیماری ہوتی ہے تو بھی یہ بیماری ہلکی پھلکی ہی رہے گی اور گھر میں رہ کر احتیاط کرتے رہنے سے رفع بھی ہو جائے گی۔راقم السطور و اس کے اہل خاندان نے ویکسینیشن کروا لیا، قارئین سے استدعا ہے کہ جلد یہ کام کروا لیں۔ امریکہ کے چیف میڈیکل ایڈوائیزر اینتھانی فاسی نے بتایا ہے کہ ہندوستان کے بھارت بایوٹیک میں بننے والی ’کوویکسین‘ کورونا بیماری کی نئی ہندوستانی شکلB.1.617 سے بھی بچائو کرتی ہے۔ویکسین تیار کرنے کے لیے اربوں کھربوں جراثیم سے ڈی این اے لوپ بنائے جاتے ہیں جن میں کورونا وائرس کے توارث کی اکائیاں موجود ہوتی ہیں،انھیں پلازمڈ (Plasmid) کہا جاتا ہے، یہی ویکسین کے لیے خام مال(Raw material) ہوتے ہیں۔ان ترمیم شدہ جراثیم کو رات بھر بالیدگی کا موقع دیا جاتا ہے پھر انھیں غذائیت سے بھرپور شوربے میں خمیر بننے کے لیے منتقل کیا جاتا ہے۔اس میں یہ چار دن تک رہتے ہیں اس عرصہ میں ہر بیس منٹ پر ان کی آبادی کئی گنا ہو کر کھربوں ڈی این اے پلازمڈ بنتے ہیں۔پھر ان میںسائنٹسٹ لوگ کیمیکل ملاکے جراثیم الگ کر دیتے ہیں اور صرف پلازمڈ رہ جاتے ہیں، ان کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے،ان میں پروٹین کے انزائم ملائے جاتے ہیں،اس طرح ایک لیٹر خالص ڈی این اے رہ جاتا ہے جس سے ویکسین کی پندرہ لاکھ خوراک تیار ہوتی ہیں۔ اس کے بعد دو ماہ کا وقفہ لگتا ہے مینوفیکچر اور ٹیسٹنگ میں، پھرویکسین کی خوراک تیار ہوتی ہیں۔در یں اثنا قرب و جوار اور اعزاء اقربا ء میں جو لوگ کورونا وائرس کے شکار ہو کر دنیا سے جا چکے ہیں اﷲتعالیٰ انھیں غریق رحمت فرمائے، آمین۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS