کتنی کارگر ہوگی جشن فتح پر پابندی؟

0

کورونا کی دوسری سفاک لہرپورے ملک کو مقتل بناچکی ہے۔ ہرگزرنے والا دن کورونا کے نئے مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ریکارڈ کررہا ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہندوستان میں کورونا کے3.60لاکھ سے زیادہ مریض پائے گئے ہیں اور انفیکشن کی وجہ سے3293 افراد اپنی زندگی گنوا بیٹھے ہیں۔ اب تک کورونا سے ہونے والی ہلاکت کی تعداد دو لاکھ کو عبور کر چکی ہے۔اس دل خراش صورتحال میں پوری دنیا ہندوستان سے اظہار یکجہتی کررہی ہے، دشمن ممالک بھی آگے بڑھ کر دست تعاون دراز کررہے ہیں لیکن ہمارے یہاں غفلتوں اور لاپروائیوں کا سلسلہ تمام ہونے کو نہیں آتا ہے۔
مدراس ہائی کورٹ کی تنبیہ کے بعد الیکشن کمیشن انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوا ہے اور 2مئی کو پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج آنے کے بعد جلسے جلوس اور جشن فتح پر پابندی کا حکم سنا رہا ہے۔ مگر عوام کی اکثریت الیکشن کمیشن کے اس حکم کو ناکافی سمجھتے ہوئے مطالبہ کررہی ہے کہ یا تو ووٹوں کی گنتی کچھ دنوں کیلئے ملتوی کردی جائے یا پھر لاک ڈائون لگاکر ووٹوں کی گنتی کی جائے۔ لیکن الیکشن کمیشن عوام کے اس مطالبہ پر غور کرنے کے بجائے کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے کیلئے اتنا ہی کافی سمجھ رہاہے کہ 2مئی کو جشن فتح اور جلسے جلوس نہ نکالے جائیں۔کمیشن نے اپنی جانب سے احتیاطی اقدام کی انتہا کرتے ہوئے یہ حکم بھی دیا کہ نتیجہ آنے کے بعد کامیاب ہونے والا امیدوار اپنی سند لینے کیلئے صرف دو آدمیوں کے ساتھ ہی جاسکتا ہے۔
دیکھاجائے تو یہ احتیاطی اقدام الیکشن کمیشن ان ریاستوں میں نافذ کرنے کا مجاز ہے جہاں اسمبلی انتخاب ہوئے ہیں اور 2مئی کو نتائج آنے والے ہیں۔ ان ریاستوں میں کیرالہ، تمل ناڈو، پدوچیری، آسام اور مغربی بنگال شامل ہیں۔مغربی بنگال میں اب تک 7 مرحلوں کی پولنگ ہوچکی ہے اور کل29 اپریل کو8ویں اور آخری مرحلہ میں بنگال کے5اضلاع کی 36 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ جب کہ بقیہ چاروں ریاستوں کے انتخابات ایک ہی مرحلہ میں مکمل کرائے جاچکے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ان ریاستوں میں کورونا کی دوسری لہر سونامی ثابت ہورہی ہے اور ہر دوسرا شخص اس موذی وائرس سے متاثر ہے۔ مدراس ہائی کورٹ نے ان حالات کیلئے الیکشن کمیشن کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور چیف جسٹس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ملک میں کورونا کی دوسری لہر کیلئے انتخابی کمیشن ذمہ دار ہے اوراس کے افسران پر قتل کا مقدمہ چلایاجاناچاہیے۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو متنبہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ 2مئی کو گنتی کے دن کیلئے کووڈ پروٹوکول بنائے جائیں اور ان کی مکمل تعمیل کی جائے، اگر ایسا نہیں ہوا تو عدالت ووٹوں کی گنتی کا شیڈیول روکنے پر مجبور ہوجائے گی۔ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی بارتھا کہ الیکشن کمیشن کے کردار پر کسی ہائی کورٹ نے اتنا سخت تبصرہ کرتے ہوئے اسے ملک میں مقتل سجانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہو۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ الیکشن کمیشن انتخاب کے دوران سیاسی پارٹیوں سے کورونا ضابطوں پر عمل درآمدکرانے میں یکسر ناکام رہاہے اور اگر الیکشن کمیشن اپنی ہدایت کی تعمیل ہی نہیں کرواسکتا ہے تو پھر اس کا کردار ہی بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔
اس امر میں کوئی کلا م نہیں ہے کہ پانچ ریاستوں کے انتخابات کے دوران بلااستثنیٰ تمام سیاسی پارٹیوں نے انتہائی بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی مہم چلائی اور کورونا وائرس کی ترسیل کا سبب بنیں جو ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے قیامت خیز ہونے کی اہم وجہ بنی۔اب عدالتی تنبیہ کے بعد الیکشن کمیشن کا یہ اقدام کتنا نتیجہ خیز ہوگا اور سیاسی جماعتیں اس کی پاسداری کریں گی بھی یا نہیں، یہ کہنا مشکل ہے کیوں کہ انتخابی دور میں الیکشن کمیشن کی ہدایتوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے والی سیاسی جماعتوں سے اس کی امید ہی نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ کمیشن کی تازہ ہدایات پر سنجیدہ ہوں گی۔پہلے بھی الیکشن کمیشن اس طرح کی درجنوں ہدایات جاری کرچکا ہے اور ملک کئی بار اس کا گواہ بھی رہ چکا ہے کہ سیاسی جماعتیں جیت کے بعد الیکشن کمیشن کے تمام ضابطوں کو پائے حقارت سے ٹھکراکر مسند نشینی کا جشن مناتی ہیں۔
کورونا کے اس قیامت خیز اور دل خراش پھیلائو کے پس منظر میں بہترتو یہی ہوتا کہ ووٹوں کی گنتی کے عمل کو مؤخر کردیا جائے یا پھر مکمل لاک ڈائون لگاکر ووٹوں کی گنتی کی جائے تاکہ وائرس کے انفیکشن کی ترسیل کو کم سے کم کیاجاسکے۔الیکشن کمیشن کو ان دونوں متبادل پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ملک کو اس وقت ریاستوں میں نئی حکومت سے زیادہ کوروناوائرس سے بچائو کی ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS