Image:DAWN

اسلام آباد(ایجنسیاں) : پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ہندوستان سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کی سفارش کو مسترد کرتے ہوئے اس سے تجارتی تعلقات فی الحال بحال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہندوستان سے چینی اور کپاس کی درآمد پر کابینہ میں کھل کر بحث ہوئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے چینی اور کپاس کی ہندوستان سے درآمد سے متعلق بات کا آغاز کیا۔ وزیراعظم نے کابینہ ارکان سے ہندوستان سے چینی کی درآمد سے متعلق رائے لی۔ 4 وزرانے ہندوستان سے چینی اور کپاس کی درآمد کی مخالفت کردی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کا بینہ اجلاس میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شیخ رشید اور شیریں مزاری نے مخالفت کی۔وزرانے کہا کہ جب تک ہندوستان میں کشمیر پرانی حالت میں نہیں لایا جاتا، ہندوستان سے کوئی کاروبار نہیں کریں گے۔ شاہ محمود قریشی نے چینی اور کپاس کی درآمد کے ساتھ ہی کشمیر کا ذکر بھی چھیڑ دیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ متعدد ارکان نے چاروں وزرا کے موقف کی تائید کی،جس کے بعد وفاقی کابینہ نے ہندوستان سے چینی درآمد کرنے کی ای سی سی کی 3 تجاویز مسترد کیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی بطور انچارج وزیر منظوری کے بعد سمری وفاقی کابینہ کو بھجوائی گئی تھی۔ ای سی سی نے ہندوستان سے سفید چینی ٹی سی پی اور پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے منگوانے کی تجویز دی تھی۔کمرشیل امپورٹرز کو 3 لاکھ میٹرک ٹن چینی 30 جون تک ہندوستان سے درآمد کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ ہندوستان سے چینی سمندر اور زمینی راستوں سے درآمد کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
خیال رہے کہ بدھ کو وزیر خزانہ حماد اظہر کی سربراہی میں ہونے والے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ہندوستان سے 5 لاکھ ٹن چینی کے علاوہ کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ جمعرات کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ہندوستان سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی تجویز کو مؤخر کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک تاثر یہ ابھر رہا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات معمول پر آ چکے ہیں اور تجارت کھل گئی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس تاثر پر وزیر اعظم عمران خان اور کابینہ کی واضح اور متفقہ رائے یہ تھی کہ جب تک ہندوستان، (ریاست کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق) 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدامات پر نظرثانی نہیں کرتا، اس وقت تک اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ممکن نہیں ہو گا۔خیال رہے کہ وزیر اعظم نے وزارت تجارت کی سمری خود دیکھ کر اسے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دی تھی، مگر کابینہ میں اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
بدھ کو قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے کہا تھا کہ ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے دنیا بھر سے چینی درآمد کرنے کی بات کی گئی، لیکن اس دوران معلومات ملیں کہ ہندوستان میں چینی کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہے، اس لیے ہندوستان سے5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تجارت کا سلسلہ 5 اگست 2019 کو ہندوستان کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیل کرنے کے بعد سے معطل ہے۔کشمیر کے مسئلے پر اس کشیدگی سے قبل پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تجارتی عمل جاری تھا۔ دونوں ممالک دو زمینی راستوں یعنی لاہور میں واگھہ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ذریعے اشیا کی تجارت کرتے رہے ہیں۔باقی دنیا کی طرح ہندوستان کے ساتھ تجارت میں بھی پاکستان خسارے میں ہے، یعنی تجارتی توازن ہندوستان کے حق میں رہا ہے۔انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر یعنی عالمی مرکز تجارت، جو اقوامِ متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مشترکہ مینڈیٹ کے ساتھ عالمی تجارت کے فروغ کیلئے کام کرتا ہے، کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں پاکستان سے ہندوستان کو برآمدات کی کل مالیت 383 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ رہی، لیکن یہ پاکستان کی برآمدات کا محض 2فیصد تھا،جبکہ پاکستان نے اسی عرصے میں ہندوستان سے جو اشیا درآمد کیں ان کی مالیت1.9ارب امریکی ڈالر تھی، جو پاکستان کی درآمدات کا محض 3 فیصد تھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS