کمی خوراک کی یا مدد کی؟

0

کب شروع ہوگی بھوک مٹانے کی مہم؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ بات بات پر طاقت کے اظہار کا شوق رکھنے والے عالمی لیڈران انسانوں کو انسان سمجھنے کی ابتدا کب کریں گے؟ دنیا کے بیشتر علاقوں میں اشیائے خوردنی کی کمی حالات کی وجہ سے ہی پیداہوتی ہے اور حالات کبھی کبھار ہی قدرتی طور پر خراب بنتے ہیں، ورنہ انسان خود خراب بناتے ہیں۔ مثلاً: صومالیہ میں پچھلے 30 برس سے اقتدار پر قبضے کی لڑائی مذہبی نظام قائم کرنے کے نام پر لڑی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے اجناس پیدا کرنا مشکل تھا۔ اس کے بعد خشک سالی بار بار امتحان لیتی رہی اور پھر کورونا نے رہی سہی کسر نکال دی۔ پچھلے سال حج میں مختصر لوگ شامل ہوئے، صومالیہ کے لوگ سعودی عرب کو جانوروں کا ایکسپورٹ نہیں کرسکے تو اس کا اثر ان کی اقتصادی حالت پر پڑا۔ اسی طرح سوڈان میں پہلے جنوبی حصے میں خانہ جنگی جاری رہی، وہاں امن قائم ہونے لگا تو مغربی حصے دارفور میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ سوڈان بٹ گیا۔ آج جنوبی سوڈان کے لوگ خوراک کی کمی سے بری طرح متاثر ہیں تو سوڈان کے لوگ بھی خوشحال نہیں ہیں۔ علاقائی بالادستی کی جنگ میں خطے کے دو ملکوں نے یمن کو تباہ کر دیا، اشیائے خوردنی کی فراہمی وہاں ایک مسئلہ بن چکی ہے اور یہ پتہ نہیں کہ شام میں امن کب قائم ہوگا، لیبیا میں کرنل قذافی اور عراق میں صدام حسین کے وقت والی خوش حالی کب آئے گی۔ شمالی کوریا میں لوگ دانے دانے کو محتاج ہیں اور کم جونگ-اُن طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان چند مثالوں سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بیشتر لیڈروں کے لیے عوام کی بھوک مٹانے کے لیے اشیائے خوردنی کے بجائے اقتدار کا حصول، اپنی یا اپنے ملک کی بالادستی عزیز تر رہی ہے۔ ایسی صورت میں دنیا بھر میں بھوک سے ہونے والی موت حیران کن نہیں ہے، البتہ یہ انسانیت کی صرف باتیں کرنے والے لیڈروں کی حقیقت کو آشکارا کرنے والی ضرور ہے۔ ’آکس فیم‘ کی رپورٹ کے مطابق، ’دنیا بھر میں بھوک سے ہر ایک منٹ میں 11 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔‘ یعنی روزانہ 24 گھنٹے میں 15,840 لوگوں کو خوراک نہ ملنے کی وجہ سے جان گنوانی پڑتی ہے مگر عالمی لیڈروں کی ترجیحات کی فہرست میں مفلسی کا خاتمہ سرفہرست نہیں ہے، ہر ملک اپنے مفاد کے حساب سے انسانیت کی باتیں کرتا ہے، ترجیحات کی فہرست ترتیب دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ’آکس فیم‘ کی رپورٹ کے آنے سے پہلے ہی یہ رپورٹ آچکی تھی کہ دنیا کی 7 ارب، 80 کروڑ کی آبادی میں 59 فیصد یعنی 4 ارب، 60 کروڑ، 20 لاکھ لوگوں کی روزانہ کی آمدنی 5 ڈالریعنی ہندوستانی پیسے میں 372 روپے بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے، ایسا اس لیے ہے کہ زیادہ تر ملکوں کا ہی نہیں، دنیا کا نظام غریبوں کو اور غریب اور امیروں کو اور امیر بنانے والا بنتا جا رہا ہے۔
’آکس فیم‘کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ’دنیا بھر میں 15 کروڑ، 50 لاکھ افراد غذائی عدم تحفظ کے بحران کی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پچھلے سال کے مقابلے میں یہ تعداد 2کروڑ سے زیادہ ہے۔‘ ’آکسفیم‘ نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ’عالمی سطح پر قحط جیسے حالات کا سامنا کرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 6 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ‘ ’آکس فیم‘ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر آبی میکس مین کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’قحط سالی کورونا وبا سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے ہر ایک شخص کو ناقابل بیان مصائب سے گزرنا پڑتا ہے۔‘ایتھوپیا، مڈغاسکر، جنوبی سوڈان، یمن، افغانستان، وینزویلا اور ان ملکوں پر فوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے جہاں اشیائے خوردنی کی عدم فراہمی اموات کی وجہ بن رہی ہے۔ عالمی لیڈران کورونا کے سامنے بے بسی ظاہر کر کے یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ انسان دوست ہیں مگر حالات نے انہیں مجبور کردیا ہے لیکن غذا فراہم کرانے کے معاملے میں ان کی کوئی مجبوری نہیں۔ ان کے پاس دولت بھی ہے اور اشیائے خوردنی کی کمی بھی نہیں ہے۔ اس کا اندازہ ان کے یہاں برباد ہونے والے کھانوں سے لگانا ناممکن نہیں ہے۔ رپورٹوں کے مطابق، امریکہ میں جو کھانا پھینک دیا جاتا ہے، ان میں 40 فیصد کھانے کے لائق ہوتا ہے۔ کینیڈا میں 58 فیصد فوڈ یعنی سالانہ 3کروڑ، 55 لاکھ ٹن کھانا برباد ہو جاتا ہے۔ ہر سال کھانے کی بربادی کی وجہ سے آسٹریلیا کو 20 ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ چین کے بڑے شہروں میں ایک کروڑ 70 لاکھ سے 80 لاکھ ٹن کے درمیان کھانا برباد ہوتا ہے۔ تقریباً 60 لاکھ کی آبادی والے ڈنمارک میں بھی سالانہ 7 لاکھ ٹن کھانا برباد ہوتا ہے۔ فرانس میں ہر فرد پر سالانہ 20 سے 30 کلو کھانا برباد ہو جاتا ہے۔ ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملکوں کو دیکھتے رہیے تو یہ فہرست طویل ہوتی جائے گی۔ دنیا بھر میں اشیائے خوردنی کی پیداوار میں کمی مسئلہ نہیں ہے، اشیائے خوردنی پہنچانے میں دشواری نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ طاقتور ملکوں کے عالمی لیڈران انسانوں کی فلاح و بہبود کی جتنی باتیں کرتے ہیں، اس کے 2 فیصد کا بھی عملی مظاہرہ نہیں کرتے۔ اگر کردیں تو ان لیڈروں کا بھرم بھی رہ جائے اور کسی کی جان بھی خوراک کی کمی کی وجہ سے نہ جائے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS