فادراسٹین سوامی- موت یا قتل؟

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

اقوام متحدہ اور یوروپین یونین کے اعلیٰ افسران کے سخت مذمتی بیانات نے فادر اسٹین سوامی کی دوران حراست موت کو اب عالمی سطح پر موضوع بحث بنا دیا ہے، کچھ ہی روز قبل عالمی شہرت یافتہ سماجی کارکن فادر اسٹین سوامی84سال کی عمر میں یو اے پی اے(UAPA)قانون کی سخت دفعات کے تحت دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ایک سال سے وہ ممبئی کی تلوجہ جیل میں قید تھے، جس وقت ان کی روح اس دنیا سے پرواز کررہی تھی ہماری عدلیہ فادر کی ضمانت پر بحث سن رہی تھی جب کہ ضمانت کے لیے بحث کئی مہینوں سے ہورہی تھی، فادر تو اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کی موت ہمارے سماج، سسٹم، سیاست اور نظام انصاف کے طریق کار کے سامنے بہت سے سوالات چھوڑگئی۔ جھارکھنڈ کے قبائلی علاقوں میں پسماندہ طبقات کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کرنے والا یہ بزرگ کون تھا اورسلاخوں کے پیچھے کیوں اور کیسے پہنچا، یہ جاننا ہم سب کے لیے اہم ہے۔
فادر اسٹین سوامی کا تعلق تمل ناڈو کے تریچی سے تھا، تاہم انہوں نے جھارکھنڈ کو ہی اپنا میدان عمل بنالیا تھا، تعلیم فلیپین میں حاصل کی تھی۔2017 میں فادر اسٹین سوامی نے جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں یو اے پی اے قانون کے تحت طویل مدت سے جیلوں میں بند زیر سماعت72ملزمین کے قانونی حقوق کی خلاف ورزی اور ناانصافی کے خلاف مفادعامہ کی پٹیشن(پی ا ئی ایل) داخل کی تھی، یہ سبھی ملزمین پسماندہ ذات و قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ فادر نے صوبے کے 24 اضلاع میں پسماندہ طبقات پر ٹرائل کے دوران ہونے والے ظلم و زیادتی، دستوری حق برائے آزادی کی خلاف ورزی کے سلسلے میں عدالتی انکوائری کی درخواست کی تھی لیکن اسی قانون میں وہ خود بھی الجھ کر اسی سسٹم کا شکار وہ کچھ سالوں میں ہونے والے تھے، اس کا ان کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ جھارکھنڈ کے موجودہ وزیراعلیٰ نے بھی مرکزی حکومت پر انتقامی کارروائی کا الزام لگایا ہے، جب کہ خود فادر سوامی نے اپنی گرفتاری سے کچھ روز پہلے این ا ئی اے کی تفتیش کو لے کر کہا تھا کہ میرا کیا جرم ہے؟کیا نوجوان قبائلیوں کی نکسلی یا ماؤوادی کا الزام لگا کر غلط طریقے سے گرفتاریوں اور زمینوں کو غیرقانونی طریقوں سے چھیننے اور گھر سے بے گھر کیے جانے کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے بھیما کورے گاؤں کیس میں پھنسایا جارہا ہے۔ سوامی دستور کے پانچویں شیڈول کے نفاذ، فارسٹ رائٹس ایکٹ اور پنچایتی ایکٹ اور ان جیسے دیگر اہم قوانین کے نفاذ کے لیے زمینی سطح پر سرگرم عمل تھے جو یقینا صنعتی گھرانوں کے ساتھ حکومت کو بھی گراں گزر رہاتھا۔

دستور کے ساتویں شیڈول کے مطابق قیدخانے اور جیل صوبائی حکومت کے زیر اختیار ہوتی ہیں، سوامی اسٹین کو علاج، ایسٹرا (Straw) یا سیپر (Sipper) کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا، مہاراشٹر حکومت ہی نہیں دہلی کی جیلیں بھی دیگر صوبوں کی طرح قیدیوں کو علاج اور میڈیکل سہولیات دستیاب کرانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہورہی ہیں، دہشت گردی کے ملزمین خاص نشانے پر ہوتے ہیں۔

بھیماکورے گاؤں مہاراشٹر میں پونہ کے قریب ایک مقام ہے، جہاں یکم جنوری 1818 کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی بامبے پریسیڈنسی آرمی کے800دلتوں کے ایک چھوٹے سے فوجی دستے نے پیشوا کی فوج کو شکست دی تھی، جس کے بعد انگریزوں نے جنگ میں شہید ہوئے دلتوں کی یاد اور فتح کی نشانی کے طور پر بھیما کورے گاؤں میں ایک جیت کا مینار تعمیر کروایا تھا، 1928 میں بابا بھیم راؤ امبیڈکر نے بھیماکورے گاؤں کے اس مینار پر جاکر خراج عقیدت پیش کی تھی جس کے بعد ہر سال یکم جنوری کو ایلگار پریشد کی جانب سے بھیماکورے گاؤں میں دلت پروگرام کرکے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔یکم جنوری2018کے دن بھی لاکھوں دلت بھیماکورے گاؤں میں جمع ہوئے لیکن اس بار فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد وہاں فساد پھوٹ پڑے جس کے بعد2جنوری2018 کی ایف آئی آر میں سمبھاجی بھیڑے اور میلینڈ ایکبوٹے کے خلاف دنگا بھڑکانے کا الزام لگایا گیا۔ فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت اور ان کی تفتیشی ایجنسیوں کو سست رفتاری کے لیے پھٹکار لگائی۔ 14؍مارچ کو پونے پولیس نے میلینڈ ایکبوٹے کو گرفتار کیا، 22؍اپریل کو 19 سالہ دلت لڑکی کی لاش کنویں سے برآمد ہوئی جو کہ دنگوں کی ایک اہم گواہ تھی، اس کا بھائی جئے دیپ جو خود بھی گواہ تھا اس کو قتل کی کوشش کے الزام میں پونہ پولیس نے گرفتار کرلیا۔ جون سے اگست کے دوران کیس کی نوعیت پوری طرح تبدیل ہوگئی۔ یو اے پی اے قانون کے تحت رونا ولسن، ایڈووکیٹ سدھابھاردواج، وراوراراو، ارون فریرا اور گوتم نولکھا جیسے سماجی کارکنان ماؤوادیوں کے ساتھ بھیماکورے گاؤں میں دنگوں کی سازش کے الزام میں گرفتار ہوگئے۔
مہاراشٹر میں اسی دوران اسمبلی الیکشن ہوئے اور نئی صوبائی حکومت نے22؍جنوری 2020کو بھیما کورے گاؤں حادثے کی تفتیش کے لیے ایس آئی ٹی (اسپیشل تفتیشی ٹیم) کا اعلان کیا لیکن دو ہی دن کے بعد25؍جنوری 2020 کو مرکزی وزارت داخلہ نے بھیماکورے گاؤں کی تفتیش این آئی اے(نیشنل تفتیشی ایجنسی) کے حوالے کردی۔ 8؍اکتوبر 2020 کے دن فادر اسٹین سوامی کو این آئی اے نے گرفتار کیا۔ 9؍اکتوبر کو پہلی بار سوامی کو عدالت میں پیش کیا گیا، اسپیشل این آئی اے کورٹ میں خراب صحت اور بیماریوں کی وجہ سے سوامی وکالت نامہ پر اپنے دستخط کرنے سے معذور رہے۔ این آئی اے نے سوامی سے تفتیش کے لیے پولیس ریمانڈ بھی نہیں مانگی اور فادر تلوجہ جیل بھیج دیے گئے، تلوجہ جیل سے علاج کے لیے28 ؍مئی کو ہولی فیملی ہاسپٹل بھیجے گئے جہاں5جولائی کو آخری سانس لی۔
سوامی اسٹین کی موت کے بعد حزب مخالف کی سیاسی پارٹیوں نے مرکزی حکومت کی منشا اور دہشت گردانہ سرگرمیوں (مانع) قانون کے غلط استعمال کو لے کر بیانات دیے، یواے پی اے قانون کی سخت دفعات اور سیاسی استعمال پر کانگریس پارٹی اور سونیا گاندھی کے بھی بیانات منظر عام پر آئے، لیکن 17؍دسمبر2008کو پارلیمنٹ میں یواے پی اے قانون پر بحث کے دوران اس قانون کے غلط استعمال کے اندیشوں پر سوال اٹھائے جارہے تھے تو یہی کانگریس اور اس کے رہنماؤں نے یو اے پی اے قانون میں سخت ترمیمات کے ساتھ این آئی اے ایکٹ کو پاس کرایا تھا۔ ضمانت نہ دینے کی غیردستوری دفعہ43D(5)کانگریس کی حکومت میں بنائی گئی۔21؍مئی کی سنوائی کے دوران اسٹین سوامی نے ہائی کورٹ سے التجا کی کہ وہ بہت بیمار ہیں اور بہت جلد مر جائیں گے، بگڑتی ہوئی صحت کی بنیاد پر ان کو ضمانت دی جائے تاکہ وہ اپنے لوگوں کے بیچ میں آخری سانسیں لے سکیں لیکن قانون اور عدلیہ مانع ہوگئی۔
اس مقدمے کا ایک اہم پہلو تفتیش ہے، تفتیشی ایجنسیوں پر اتنے سنگین الزام پہلی بار عائد ہوئے ہیں، امریکہ کی آرسینل کنسلٹنگ کے صدر مارک اسپینسر نے اپنی فارنسک رپورٹ میں سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے سائنٹفک رپورٹ پیش کی ہے کہ بھیما کورے گاؤں مقدمے میں ملزم بنائے گئے ایڈووکیٹ سریندر گڈلنگ کے کمپیوٹر میں غلط طریقے سے ڈاکومنٹس پلانٹ کیے گئے تھے، ایسی ہی رپورٹ مقدمے کے دوسرے ملزم رونا ولسن کے لیپ ٹاپ کو لے کر بھی کچھ عرصہ قبل سامنے آئی تھی، جس کا الزام بھی تفتیشی ایجنسیوں پر لگایا گیا تھا۔ کیا ان تفتیشی ایجنسیوں کو لامتناہی اختیارات دے کرقانونی جواب دہی سے اسی لیے آزاد رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے سماج سے اٹھنی والی آواز کو کسی بھی صورت سے دبادیں۔ اس کام کو آسان کرنے کے لیے پہلے ٹاڈا اور پوٹا جیسے قانون بنائے گئے، ان کالے قوانین کے منسوخ ہونے کے بعد وہی سخت دفعات یو اے پی اے میں ترمیم کے بعد شامل کردی گئیں، جس کا استعمال اقلیتی و پسماندہ طبقات کے خلاف سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہورہاہے۔
دستور کے ساتویں شیڈول کے مطابق قیدخانے اور جیل صوبائی حکومت کے زیر اختیار ہوتی ہیں، سوامی اسٹین کو علاج، ایسٹرا یا سیپر کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا، مہاراشٹر حکومت ہی نہیں دہلی کی جیلیں بھی دیگر صوبوں کی طرح قیدیوں کو علاج اور میڈیکل سہولیات دستیاب کرانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہورہی ہیں، دہشت گردی کے ملزمین خاص نشانے پر ہوتے ہیں۔ عدلیہ اگر یوں ہی خاموش تماش بین بنی قانون اور تفتیش کا غلط استعمال دیکھتی رہے گی تو نظام عدلیہ تو ملک میں قائم رہے گا لیکن انصاف قائم نہیں ہوگا، انصاف کے لیے ضروری شرط ہے کہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے، عدلیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ فادر اسٹین سوامی کی موت کو قتل اور عدلیہ کو قاتل کہنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS