کرناٹک : 2022 میں سرخیوں میں رہا حجاب اور حجابی گرل

0

ریاست کرناٹک کے ایک دورافتادہ علاقے سے شروع ہونے والاحجاب معاملہ 2022میں سرخیوںمیں رہا۔حجاب معاملہ اور حجابی گرل منڈیاکی طالبہ مسکان خان نے قومی ہی نہیںبلکہ بین الاقوامی سطح پر لوگوںکی توجہات اپنی جانب مبذول کرائی۔دراصل اڈپی میں گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کے انتظامیہ نے 31 دسمبر 2021کو حجاب پہن کر کلاس رومز میں آنے والی6 مسلم طالبات کو یہ کہہ کر کلاس رومز میں داخل ہونے سے روک دیا کہ وہ کالج کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ لیکن ان مسلم طالبات کا اصرار تھا کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے تحت حجاب پہن کر کلاس رومز میں آ سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں- کرناٹک کی یہ شیرنی بھگوؤں کو دہاڑ دی۔ (مسکان خان)

یہی وہ معاملہ تھا جس نے تنازعہ کی شکل اختیارکرلی اور کرناٹک سمیت دیگرریاستوں اور عالمی سطح پر موضوع بحث بنا۔ حجاب تنازع کرناٹک ہائی کورٹ کے بعد اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میںبھی اس پر گرما گرم بحث بھی ہوئی۔ سینئر صحافی تنویر احمد کہتے ہیں کہ اڈپی میں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد سے زائد ہے اور وہاں مالز اور دیگر عوامی مقامات پر برقع پوش خواتین اکثر نظر آتی ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران مسلم خواتین میں برقع پہننے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔سال رواں ماہ جنوری کے اوائل میںریاست کے کوپل ضلع میں ہندو طلبا نے جو کہ گلے میں بگھوا رومال ڈالے ہوئے تھے‘ حجاب کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ اگر حجاب کی اجازت دی جائے گی تو بھگوا رومال کی بھی اجازت دی جائے۔یہ معاملہ رفتہ رفتہ بڑھتا رہا اور جنوری کے اواخر اور فروری کے اوائل میں مختلف شہروں اور قصبوں میں حجاب کی حمایت اور مخالفت میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔معاملے کی شدت کے پیشِ نظر ریاست کی بی جے پی حکومت نے6 فروری کو کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کا حوالہ دے کر تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگا دی۔ جب بعض حلقوں کی جانب سے اس حکم نامے کی پرزور مخالفت کی جانے لگی تو وزیر اعلی بسو راج بومئی نے 8فروری کو تمام تعلیمی اداروں کو تین روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کر دیا۔بعض مسلم طالبات کی جانب سے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ میں متعدد پٹیشنز داخل کی گئیں اور اپیل کی گئی کہ چونکہ حجاب پہننا ان کا بنیادی حق ہے لہذا اس کی اجازت دی جائے۔ہائی کورٹ نے دو روز کی سماعت کے بعد یہ معاملہ بڑے بنچ کے حوالے کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں- کرناٹک میں حجاب پر پہن کر ایگزام دینے گئی طلبہ کو کالج میں نہیں ملی انٹری

کرناٹک ہائی کورٹ کی چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے اسی روز تین رکنی بینچ تشکیل دیا۔ ہائی کورٹ نے اپنافیصلہ سنایاجس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ اسی دوران8 فروری کو ریاست کے منڈیا کے ایک کالج میںبی کام سیکنڈ ایئر کی طالبہ مسکان خان کو گلے میںبھگوا رومال لٹکائے ہوئے درجنوںہندو طلبا کی جانب سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ لوگ جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے باحجاب مسکان خان کی جانب بڑھنے لگے جس کے جواب میں کالج کی طالبہ مسکان خان نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ مسکان کے اس اقدام کو مسلم حلقوں میں بہادری کی علامت سمجھا گیا ،لوگ دور دراز کاسفرطے کرتے ہوئے منڈیاکارخ کرنے لگے اور مسکان کو اعزاز واکرام اور انعامات سے نوازنے لگے۔واضح رہے کہ کرناٹک میں حجاب معاملے پر تنازع کوئی نیانہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں- کرناٹک میں حجاب کے بعد اب بائبل پرہنگامہ!

گزشتہ 15 برسوں کے دوران مختلف مواقع پر یہ معاملہ مقامی سطح پر اٹھتا رہا ہے،لیکن کالج کی سطح پر ہی اسے حل کر لیا جاتا تھا۔2014 کے بعد سے کالج انتظامیہ نے سیاسی دباؤ پر اپنا رویہ سخت کیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلم طالبات کی جانب سے اب زیادہ ردِعمل سامنے آیا۔ وائس آف امریکہ سے بات چیت میںسیدتنویر احمدنے بتایاکہ ریاست کرناٹک کے دوسرے علاقوں میں بھی مسلم طالبات برقعے میں کالج جاتی ہیں اور بنگلور کے متعدد کالجوں میں مسلم طالبات ہر فلور پر نماز بھی ادا کرتی ہیں۔ لیکن حالیہ عرصے میں کرناٹک کے مختلف علاقوں میں مسلم کمیونٹی نے اپنا تشخص اجاگر کرنے کا سلسلہ شروع کیا جسے ہندو تنظیموں نے پسند نہیں کیا۔ جب اڈپی کی 6 مسلم طالبات نے حجاب میں کلاس رومز میں جانے پر اصرار کیا تو ہندو تنظیموں کو اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کا ایک موقع مل گیا۔ لہٰذا کئی ہندو تنظیمیں حجاب کی مخالفت میں سرگرم ہو گئیں۔ جب اڈپی کے کالج میں مذکورہ تنازع پیدا ہوا تواے بی وی پی، ہندو سینا اور دیگر تنظیمیں اس معاملے میں کود پڑیں۔ ہندو تنظیموں کی سرگرمی کو دیکھ کرممنوعہ ’پی ایف آئی‘ کی اسٹوڈنٹس ونگ ’کیمپس فرنٹ آف انڈیا‘ بھی میدان میں آگئی۔ اس طرح ہندو تنظیمیں بھگوا رومالوں کی سیاست کرنے لگیں اور پی ایف آئی اور کمپس فرنٹ آف انڈیا برقعے اورحجاب کی۔نتیجتاً ریاست کے ایک دوردراز علاقے میں پیش آنے والاحجاب معاملہ میڈیاکی ہیڈ لائنز بنا اور اب یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت ہے۔

یہ بھی پڑھیں-

کرناٹک میں مذہبی منافرت کا بڑھتا طوفان

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS