اسکول میں پگڑی کی اجازت تو حجاب پر روک کیوں؟ ایڈووکیٹ پاشا کا سوال

0
Latest Law

نئی دہلی، (ایجنسیاں) : کرناٹک حجاب تنازع پر سپریم کورٹ میں تیسرے دن کی سماعت جمعرات کو جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ میں ہوئی۔
سماعت تین گھنٹے سے زیادہ دیر تک چلی۔ اس دوران عرضی گزار کے وکیل نظام پاشا اسلام کی لازمی روایات کے بارے میں بتاتے رہے، جس پر جسٹس دھولیا
نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ ہمیں گول۔ گول مت گھومائیے۔ سماعت کے شروعات میں عرضی گزار کے وکیل دیو دت کامت نے کہا لا اینڈ آرڈر بگاڑنے کاڈر
دکھاکر آپ ہمیں حجاب پہننے سے نہیں روک سکتے ہیں؟ یہ میرا بنیادی حق ہے۔ اس پر جسٹس گپتا نے کہا کہ کیا حجاب پہن کر اسکو ل جانا آپ کا بنیادی حق
ہے؟ ایڈووکیٹ کامت نے کہا کہ میرے حجاب پہننے سے کس کے بنیادی حقوق پامال ہوتے ہےں۔؟ سپریم کورٹ میں میرے کئی دوست پگڑی پہن کر آتے ہیں۔
جسٹس گپتا نے کہا کہ دوسرے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کاسوال نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے پاس بنیادی حق ہے؟ ایڈووکیٹ پاشا نے کہا کہ
اسکولوں میں پگڑی پہن کر جانے کی اجازت ہے، لیکن حجاب پر روک لگادی گئی ہے۔جب پگڑی ڈسپلن شکنی نہیں ، تو پھر حجاب سے کیسے۔؟جسٹس گپتا نے کہا
کہ مہربانی کرکے سکھ مذہب کے ساتھ کوئی موازنہ نہ کریں۔ سب کچھ پہلے سے طے ہے، سکھ اسکولوں کا ایک معاملہ پہلے سے عدالت میں ہے۔ ایڈووکیٹ پاشا
نے کہا کہ اسلام بھی 1400سال پرانامذہب ہے اور حجاب بھی اتنا ہی پرانا ہے۔کرناٹک ہائی کورٹ پر سپریم کورٹ میں5 ستمبر کو قریب ایک گھنٹہ ، 7ستمبر
کود و گھنٹے اور 8 ستمبر کو تین گھنٹے کی سماعت ہوئی۔ عرضی گزار کا زور کیس کو آئینی بنچ میں بھیجنے پر رہا۔ عرضی گزاروں کے وکیل کامت نے دلیل دی
کہ اس فیصلے سے آئین کی شق21 (ذاتی آزادی) اور شق25 (مذہبی آزادی) پر سیدھے اثر ہوگا۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے 14 مارچ کو حجاب تنازع پر فیصلہ
سنایا تھا، جس میں کہاتھا کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے آگے کہا تھا کہ اسٹوڈنٹس اسکول یا کالج کی طے شدہ یونیفارم پہننے سے
انکار نہیں کرسکتے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS