صحت سے متعلق دعوے،رپورٹ اور زمینی حقیقت

0

محمد حنیف خان
تعلیم ، صحت ،روزگار۔روٹی کپڑا اور مکان یہ سب ایک ریاست کی ذمہ داری ہے ،اگر ایک ریاست/حکومت ان محاذوں پر ناکام ہے تو وہ خواہ کتنے بھی دعوے کرے اس کو ناکام ہی کہاجائے گا لیکن اگر دنیا کی حکومتیں عوام کی مذکورہ ضرورتیں پورا کر رہی ہیں تو یقینا ان کو مفاد عامہ والی حکومت قرار دیا جائے گا۔ہر فرد کی ضرورت اور خواہش ہوتی ہے کہ حکومت یہ ساری ضرورتیں پوری کرے لیکن کیا ہماری جمہوری حکومتیں ایسا کرنے میں کامیاب ہیں؟اس سوال کا جواب حزب اختلاف کے تناظر یا اس کے چشمے سے بالکل نہیں تلاش کیا جانا چاہیے بلکہ ہر شخص خود کو ملنے والی سہولیات کی بنیاد پر اس کا فیصلہ کرے۔اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا پہلا سال مکمل ہونے کے قریب ہے، اس کے باوجود آج بھی ان سبھی محاذوں پر اگر دیکھا جائے تو ناکامی ہی ہاتھ لگتی ہے۔تعلیم کا پیمانہ صرف شہر نہیں ہوسکتے،اس کے لیے سب سے پہلے دیہی علاقوں کا رخ کرنا چاہیے۔ دیہی علاقوں میں آج بھی ایک بڑی آبادی علم کے زیور سے محروم ہے،جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کو درست طریقے سے ادا نہیں کررہی ہے۔ سالانہ ریاستی تعلیمی رپورٹ 2019(اے ایس ای آر)کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں کے صرف 16فیصد بچے ہی پہلی جماعت میں حروف کی پہچان کرسکتے ہیں جبکہ 40فیصد بچے حروف کو جوڑ نہیں سکتے۔اس سے تعلیمی نظام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس محاذ پر بہت سی خامیاں ہیں مثلاً اساتذہ کی کمی،اور جو ہیں اول وہ پڑھاتے نہیں، دوم بہت سے ایسے بھی ہیں جو برائے نام استاد ہیں کیونکہ وہ پڑھاہی نہیں سکتے۔روزگار کا عالم یہ ہے کہ یوپی کے راج بھون میں اگر صفائی ملازم اور چپراسی کے لیے اسامیوں کا اعلان ہوتا ہے تو ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے کئی سو افراد درخواست دیتے ہیں۔یا پھر ناراضگی میں تعلیم یافتہ نوجوان وزیراعظم کا بتایا ہوا نسخہ سڑک پر آزماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور بورڈ پر ’ایم اے انگلش چائے والی ‘ کا بورڈ نظر آتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا اگر جائزہ لینا ہے تو ان سردیوں کی ٹھٹھرتی رات میں کسی بھی شہر میں سڑک پر نکل جایئے، حقیقت منکشف ہوجائے گی۔ایک پوری خلقت ہے جو ننگی،بھوکی سڑک کے کنارے بدبودار چیتھڑوں میں لپٹی پڑی ملے گی۔حکومتیں ان سے بالکل بے نیاز ہیں۔
منصوبہ ساز ادارہ ’’نیتی آیوگ‘‘ مرکزی حکومت کا ایک اہم ادارہ ہے،جو متعدد شعبوں سے متعلق اپنی رپورٹ ٹھوس حقائق کی بنیا دپر تیار کرتا ہے،جس کی اپنی اہمیت ہے،یہ وہ حقائق ہیں جن کو حکومتیں بھی نہیں جھٹلا سکتی ہیں۔ابھی اس کی ملک میں صحت عامہ سے متعلق ریاستوں کی پروگریس رپورٹ آئی ہے،جس میں ایسی حقیقتوں کا انکشاف کیا گیا ہے جس سے حکومتیں بھی آنکھ نہیں چرا سکتی ہیں۔آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اترپردیش ہے جو صحت کے معاملے میں سب سے بڑی پھسڈی ثابت ہوئی ہے۔ نیتی آیوگ کے ہیلتھ انڈیکس میں وہ سب سے نیچے ہے، جس سے اترپردیش میں چہار طرفہ ترقیات کی حقیقت کے ساتھ ان دعوؤں کی بھی قلعی کھل گئی ہے جن میں روز اسٹیج سے کہاجاتا ہے کہ اترپردیش اب ’اُتم پردیش‘ بن چکا ہے۔ لفظوں کو جوڑ کر نئے لفظ بنا کر بتایا جاتا ہے ’یوپی پلس یو گی بہت ہیں اپیوگی‘جبکہ کیرالہ77.53کے ساتھ اس انڈیکس میں سب سے پہلے مقام پر ہے۔ اترپردیش 34.44 پوائنٹ کے ساتھ سب سے نیچے ہے جبکہ بہار 39.10اور مدھیہ پردیش 40.77 پوائنٹس کے ساتھ نیچے سے دوسرے اور تیسرے مقام پر ہیں۔یہ تینوں ریاستیں مرکز کی مقتدرہ پارٹی والی ریاستیں ہیں۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ڈبل انجن کی سرکاریں ہیں۔چونکہ ان ریاستوں کو زیادہ ذمہ دار اس لیے ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ وہ مرکز کے عدم تعاون کا الزام نہیں لگا سکتی ہیں۔ وہ پوری صلاحیت کے ساتھ ہر محاذ پر کام کر سکتی ہیں۔جبکہ جو تین ریاستیںکیرالہ ، تمل ناڈو اور تلنگانہ وغیرہ سر فہرست ہیں وہ غیر بی جے پی ہیں۔
نیتی آیوگ نے یہ رپورٹ مرکزی وزارت صحت اور عالمی بینک کے تعاون سے تیار کی ہے جس میں ریاستوں کی صحت خدمات کی حالت بتانے والے 24انڈیکیٹرس کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے جن میں ہیلتھ آؤٹ کم، گورننس اور صحت اطلاعات وغیرہ شامل ہیں۔یہ چوتھا سال ہے نیتی آیوگ نے ریاستوں کا ہیلتھ انڈیکس جاری کیا ہے۔اب تک کیرالہ کا ہی سب سے اچھا مظاہرہ رہا ہے، چونکہ تعلیمی سطح وہاں کی سب سے بہتر ہے، اس لیے جو حکمراں ہیں وہ بھی تعلیم یافتہ اور صحت کی اہمیت کو سمجھنے والے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہ اس محاذ پر ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اگر عوام کی صحت درست رہے گی تو بہت کچھ خودبخود درست ہوجائے گا۔دوسری ریاستوں خاص طور پر اترپردیش میں عوام سب سے زیادہ پریشان صحت خدمات کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ دارالحکومت لکھنؤ میں تین بڑے مرکزی اسپتال ہیں۔میڈیکل کالج،ایس جی پی جی آئی اور رام منوہر لوہیا اسپتال۔ایس جی پی جی آئی میں مریض کو نمبر لینا پڑتا ہے،جو دو تین ماہ بعد کا ملتا ہے، یہاں وہی مریض پہنچتے ہیں جن کی حالت اضطراری ہوتی ہے، ایسے میں اگر دو تین ماہ کے بعد کا وقت ملے تو مریض کیا کرے گا یا پھر سیاسی سفارش ہونی چاہیے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔میڈیکل کالج کے باہر پڑی ایک بڑی خلقت وہاں کے حالات بیان کرتی ہے، یہاں بڑے بڑے ریکٹ چلتے ہیں،یوں تو جانچ سب اندر ہی ہوتی ہے، لیکن ڈاکٹر اور ریکٹ نے ایسا مکڑ جال بنایا ہے جس میں مریض پھنسے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔لکھنؤ ہی کیا پورے ملک میں صحت اور تعلیم کا شعبہ بہت منافع بخش روزگار کے طور پر سامنے آیا ہے،کیونکہ مریضوں کو نوچنا کھسوٹنا آسان ہوتا ہے، انسان اپنی جان بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔
اس درمیان ایک تعجب خیز معاملہ یہ ہوا کہ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد جب حکومت اترپردیش کے ساتھ ہی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی اتر پردیش انتخاب کے ضمن میں حالیہ تقریروں اور ان کے دعوؤں کا مذاق اڑایا جانے لگا اور رپورٹ کو آئینہ بتا کر حقیقت بیانی سے کام لینے کا مشورہ دیا جانے لگا توآیوگ کے سی ای او نے پریس سے صفائی دیتے ہوئے کہا: ’’اترپردیش قابل مبارک باد ہے کیونکہ یوپی میں سب سے زیادہ اس شعبے میں ترقی ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بڑی ریاست،چھوٹی ریاست اور یونین ٹیریٹری کی الگ الگ رینکنگ ہوتی ہے، جو بڑی ریاستیں ہیں ان میں سب سے زیادہ امپروومنٹ اترپردیش میں ہوئی ہے، ڈیلٹا جسے اصطلاح میں امپرووڈ رینکنگ کہا جاتا ہے، اس میں اترپردیش پہلے مقام پر ہے۔‘‘لیکن اس حقیقت سے وہ انکار نہیں کرسکتے کہ رپورٹ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے، باقی ان کی باتیں لیپا پوتی سے زیادہ حیثیت نہیںرکھتی ہیں۔اس کی ضرورت ان کو کیوں پڑی، اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔
مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو صحت سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور ادا کرنا ہوگا کیونکہ صرف اشتہارات اور اعداد و شمارسے عوام کی صحت درست نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی تصویریں لگانے اور اسٹیج پر چیخنے چلانے سے عوام کو راحت ملتی ہے،اس کے لیے ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے،آج بھی عوام خصوصاً دیہی عوام بڑی بڑی بیماریوں سے نجات کے لیے اپنی زمینیں فروخت کر کے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کررہے ہیں،وہ اپنی زندگی کی جنگ اپنے کل اثاثہ کے عوض جیتنے پر مجبور ہیں،یہ اسپتال مالکان انسان سے زیادہ کاروباری ہیں،جن کے سینے میں دل کی جگہ پتھر رکھا ہوا ہے، حکومت کو اس حقیقت کو جاننا ہوگا اور عوام کو اس سے نجات دلانی ہوگی۔عوام حکومت سے سب سے پہلے تعلیم اور صحت خدمات ہی چاہتے ہیں، جو ان کو حکومتیں مہیا نہیں کرا پا رہی ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS