نئے سال میں ملک کو کیسا ہونا چاہیے؟

0

عبدالماجد نظامی
آج31 دسمبر کا دن ہے۔ ایک طرف سال2021 ختم ہو رہا ہے تو دوسری طرف2022کے استقبال کے لیے دنیا دیدہ و دل فرش راہ منتظر ہے۔ انسانی زندگی ہمیشہ امید پر قائم رہتی ہے اور اسی لیے انسانی آبادی کی اکثریت بھی یہ توقع رکھتی ہے کہ شاید نیا سال اپنے ساتھ خیر و برکت کی وہ تمام بہاریں لے کر آئے جس کی ضرورت آج ہر پژمردہ و نڈھال جسم و جان کو ہے۔ کورونا کے مرض نے عالمی وبا کی شکل میں ہر خاص و عام اور امیر و غریب کو متاثر کیا ہے۔ نہ ثروت و دولت اور قوت و سطوت کے عروج پر قائم امریکہ اس سے محفوظ رہ سکا اور نہ ہی تیسری دنیا کا کوئی غریب ملک اس کی بربریت سے نجات پاسکا۔ البتہ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ اصحاب جاہ و ثروت کے مقابلہ میں مزدوروں اور کسانوں یا چھوٹے تاجروں کی زندگیاں اتھل پتھل کا شکار ہوگئیں۔ جن شہروں کی طرف روزگار کی تلاش میں انسانوں کا قافلہ چلا آتا تھا وہاں سے بھاگ کر اپنے گاؤں اور قصبوں کی طرف رخ کرنے والے مزدوروں کی بے کسی اور پیدل ہی سیکڑوں میلوں کا سفر کرنے کا عزم لیے چل پڑنے والی عورتوں اور بچوں کے پاؤں کے چھالوں نے یہ بتادیا کہ حکومتوں کی پالیسیاں کبھی محنت کش انسانوں کے مفاد کو دھیان میں رکھ کر نہیں بنائی جاتی ہیں۔ خوف اور بے کسی کے سائے میں ہزاروں انسانوں کے اس سیلاب کو ساحل حیات تک پہنچانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں کیا گیا۔ انسانیت نوازی اور غمگساری کے پہلو اگر نظر آئے تو بس ان عام انسانوں میں جنہوں نے اپنی زندہ دلی کا ثبوت دیا اور غموں سے نڈھال اس انسانی قافلہ کی مدد کھانے کی اشیاء اور پانی کی بوتلوں کی فراہمی کے ذریعہ سے کرنا اپنا فریضہ سمجھا۔ جو زندہ بچ گئے انہیں فقر و فاقہ کے خیال سے گھبراہٹ ہوتی رہی اور جو اس وبا کا شکار ہوئے انہیں سانس لینے کے لیے آکسیجن کے انتظار میں ترسنا پڑا۔ جو موت کے بے رحم ہاتھوں کا شکار ہوئے انہیں شمشان و قبرستان میں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا۔ جن کے اہل خانہ کے لیے لکڑیوں کا انتظام کرنا بھی مشکل ہوگیا تو انہوں نے لاشوں کو ندیوں کے حوالہ کر دیا۔ اتنی بے بسی اور مایوسی کا منظر شاید ہی ہندوستان نے حال کی تاریخ میں دیکھا ہوگا۔ یہ دل دوز واقعات بتاتے ہیں کہ ہماری حکومتوں کو اپنی ترجیحات میں بہتر اسپتالوں کے قیام، مقامی سطح پر روزگار کے عمدہ مواقع کی فراہمی، شرح غربت میں کمی لانے کے طریقوں اور ویلفیئر اسکیموں کو موثر ڈھنگ سے نافذ کرنے جیسے مسائل کو شامل کرنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ تعلیمی نظام کو اس لائق بنایا جائے کہ ہر غریب و امیر بچہ معیاری تعلیم حاصل کرسکے۔ کورونا نے اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کو خاص طور سے متاثر کیا ہے اور سماجی نابرابری کا پہلو یہاں زیادہ واضح طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ آن لائن تعلیم کی مجبوری نے سماج کے ان طبقوں کو خاص طور سے متاثر کیا جن کے لیے اسمارٹ فون کا خریدنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ ایسی صورت میں بچیوں کی تعلیم زیادہ متاثر ہوئی کیونکہ اگر کوئی فیملی صرف ایک اسمارٹ فون خریدنے کی صلاحیت رکھتی تھی تو ترجیح بیٹے کو دی گئی۔ اسی طرح اگر پرائیویٹ اسکول سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں ڈالنے کا فیصلہ لینا پڑا تو یہاں بھی بچیوں کو ہی پرائیویٹ اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں ڈالا گیا جہاں کا نظام تعلیم بد سے بدتر ہوتا جاتا ہے لیکن اس کو ٹھیک کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی ہے۔ اگر ہم ایک ترقی یافتہ سماج کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو امیر و غریب کے اس فرق کو دور کرے اور عدم مساوات کے خاتمہ کا سبب بنے۔
ایسے وقت میں جبکہ وبا کی مار سے اقتصادی اعتبار سے کمزور طبقہ بے حال ہوچکا ہے اور اشیاء خورد و نوش کی قیمت آسمان چھو رہی ہے، ویلفیئر اسٹیٹ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی اقتصادی اور سماجی پالیسیاں بنائے اور انہیں نافذ کرے جو سماج میں عدم مساوات اور فقر و فاقہ کو ختم کرسکیں۔ اس کے برعکس نظر یہ آتا ہے کہ حکومتیں عوام کی باتیں سننے کے لیے تب تک آمادہ نہیں ہوتی ہیں جب تک وہ طویل مدت تک احتجاج کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں پیش نہ کردیں جیسا کہ کسان آندولن کے معاملہ میں ہوا۔ اب ڈاکٹروں کا احتجاج جاری ہے اور بظاہر کوئی حل اب تک کی گفتگو سے سامنے نہیں آیا ہے۔ اس سے قبل سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جاری ملک گیر عوامی تحریکِ احتجاج کو بھی کسان تحریک کی طرح بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن کبھی مظاہرین سے گفتگو کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ادھر مسئلۂ کشمیر میں بھی سدھار کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے جبکہ آرٹیکل370کے خاتمہ کا مقصد ہی وادیٔ کشمیر سے دہشت گردی کا خاتمہ بتایا گیا تھا۔ کیا ہماری سرکار آج یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہاں زندگیاں پرسکون ڈھنگ سے گزر رہی ہیں؟ کشمیر کے قد آور لیڈر فاروق عبداللہ نے کرن تھاپر کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں جس درد و کرب کا اظہار کیا ہے، اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ اس کے علاوہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہندوتو عناصر کے حملے اور نفرت انگیز بیانات میں جو شدت پیدا ہوگئی ہے اس سے ملک کی سالمیت کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے کیونکہ یہ نفرت آمیز بیانات صرف ہندوتو کے چھوٹے لیڈروں کی جانب سے نہیں دیے جارہے ہیں بلکہ اس میں وزراء اور ایم پی تک شامل ہیں۔ یہ حالات ملک کے لیے فال نیک بالکل نہیں ہو سکتے۔ پانچویں جنریشن وارفیئر کے دور میں ہمیں اپنی ترجیحات جدید تقاضوں کے مطابق ہی طے کرنی ہوں گی۔اگر ہم اپنے ملک کی ترقی اور اس کی نیک نامی کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہمیں دستور ہند کی روح کی حفاظت کرنی ہوگی تاکہ لسانی و تہذیبی تکثیریت والا یہ ملک لبرل ڈیموکریسی کے اصولوں کی بنیاد پر اپنا طویل سفر طے کرسکے جس میں ہر شخص کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔ اگر اس عزم کے ساتھ ہم نئے سال کا استقبال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم2022 سے ایک بہتر آغاز کر پائیں گے ورنہ تو محض نمبر کے بدلنے سے حالات میں بدلاؤ کی توقع رکھنا بے سود ہے۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS