زرعی اصلاحات اورکسانوں کے خدشات

0

زرعی  اصلاحات کے نام پر کاشت جیسے اہم ترین اور بنیادی شعبہ کو سرمایہ داروں اور’ پونجی پتیوں‘ کوسونپنے کی تیاری کے خلاف پورے ملک کے کسان متحد ہوکر مظاہرہ کررہے ہیں۔ پنجاب سے شروع ہونے والے کسانوں کے اس مظاہرہ کو حزب اختلاف کی کم و بیش تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے۔ ایک طرف کسان سڑکوں پر ہیں تو دوسری طرف سیاسی پارٹیوں نے زرعی اصلاحات کے تینوں بل کو ملک کے وفاقی ڈھانچہ کے خلاف اب تک کا سب سے بڑا حملہ بتایا ہے کیوں کہ آئین کی روسے زرعی معاملات ریاست کے امور میں آتے ہیں۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی سے لے کر جھارکھنڈ کے ہیمنت سورین تک نے اسے مرکزکی منمانی سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایسا ہی ہوتارہا تو یہ ریاستوں میں انقلاب کا سبب بنے گا۔ 
ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک چہار جانب سے بحران اور سنگین مسائل سے گھرا ہے حکومت کی جانب سے زرعی اصلاحات کا ڈھول پیٹا جانا ہندوستان کی تیرہ بختی ہی کہاجائے گا۔بحران کے اس دور میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اتحاد اور اتفاق کے ساتھ مسائل سے نمٹنے کی سبیل نکالی جاتی لیکن نہیں، کورونا، معیشت، مہنگائی، بے روزگاری اور چین کی جارحیت جیسے سنگین مسائل کے درمیان حکومت نے کسانوں کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو بھی ناراض کرنے والا قدم اٹھایا ہے۔ معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند دنوں قبل تک جو اکالی دل ٹریزری بنچ پر بیٹھ کر حکومت کے ہر سیاہ و سفید میں اس کا حصہ دار تھا، اس نے بھی حکومت کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے اورکسانوں کے مفاد سے سمجھوتہ نہ کرنے کے نام پراس کی ہرسمریت کور بادل نے وزارت کو بھی ٹھوکر مار دی ہے۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوا نوںسے پاس ہوکر قانون بننے کیلئے صدر جمہوریہ کے دستخط کے منتظر یہ تینوںبل فارمرس پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس(پروموشن اینڈ فیسی لیٹیشن)بل2020(ایف پی ٹی سی )، دی فارمرس (امپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن) اگریمنٹ آف پرائس ایشیورینس اینڈ فارم سروسزبل 2020(ایف اے پی اے ایف ایس) اور ایشین شیل کموڈیٹیز(امینڈمنٹ) بل2020 آرڈی نینس کی شکل میں گزشتہ5جون 2020سے ہی ملک میں نافذ ہیں۔ انہیں ایوان میں پیش کیے جانے سے پہلے سے ہی کسان اس کی مخالفت کررہے ہیں۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ کسانوں کی حالت زارکو بہتر بنانے،فصل کی درست قیمت دلانے اور بچولیوں سے نجات دلانے کی سمت یہ بل تاریخی اہمیت کے حامل ہیں لیکن کسان اسے زراعت میں سرمایہ داروں کی سرگرم شرکت اور اپنی ہی زمین پر مزدور بن جانے سے تعبیر کررہے ہیں۔
کسانوں کے خدشات کو نظر انداز کرکے حکومت بزور بازو ایسے قانون نافذ کرنے پر آمادہ ہے جس کا براہ راست فائدہ بڑے بڑے سرمایہ داروں، جمع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو پہنچے گا۔ایشین شیل کموڈیٹیز ایکٹ 1955میں جو ترمیم کرکے ایشین شیل کموڈیٹیز(امینڈمنٹ) بل2020 پیش کیاگیاہے اس میں ذخیرہ اندوزی کے امتناع پر سے پابندی ہٹادی گئی ہے۔یعنی اب تاجروں اور سرمایہ کاروں کو کھلی چھوٹ ہوگی کہ وہ چاول، دال، گندم، تلہن، دلہن، آلو، پیاز اور ہر طرح کے اناج جتنا چاہیں جمع کرکے رکھ سکتے ہیں۔اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو پھر ملک کو مصنوعی غذائی بحران سے بچاپانا ممکن نہیں ہوگا۔ دوسرے بل کے تحت کسان اپنی فصل زرعی منڈیوں کے باہر بھی نجی کاروباریوں کو بیچ سکتاہے۔فصل منڈی کے اندر بیچنے پر 6 فیصد ٹیکس لگے گا جب کہ باہر کہیں بھی فصل کا سودا ٹیکس فری ہوگا۔ تیسرے بل میں کانٹریکٹ فارمنگ یعنی ٹھیکہ پر مبنی کاشت کو قانو نی شکل دے دی گئی ہے، اس کے تحت بڑے کاروباری اور نجی کمپنیاں کسانوں سے ٹھیکہ کی بنیاد پر زمین لے کر خود کاشت کرسکیں گی۔ مرکزی حکومت کے مطابق یہ بل کسانوں کیلئے ’ وردان‘ ہے اور یہ ان کی زندگی میں ’انقلابی‘ تبدیلی لائے گا۔کاشت میں نجی سرمایہ کاری ہونے سے ترقی کی رفتار بڑھے گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔لیکن کسان حکومت کے استدلال سے مطمئن نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ نئے قانون سے زراعت کا شعبہ بھی سرمایہ کاروں اور کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا اور اس کا نقصان کسانوں کو ہوگا۔ بازار میں سرمایہ کا بول بالا ہوگا اور عام کسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ محنت کش کسان سرمایہ کاروں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے جہاں کم از کم سپورٹ قیمت(ایم ایس پی)دھیرے دھیرے ختم ہوجائے گی، وہیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی سات ہزار کسان منڈیوں کا نظام بھی ختم ہوجائے گا۔اس کے علاوہ ذخیرہ اندوزی اور جمع خوری کی قانونی منظوری بھی کسانوں کے ساتھ ساتھ عام ہندوستانیوں کے حق میں بھی خطرناک ہے جب کہ کانٹریکٹ فارمنگ یعنی ٹھیکہ پر کاشت سے کسان اپنی ہی زمین پر مزدور بن کر رہ جائیں گے۔
کسانوں کے ان اعتراضات کو سرسری طور پر نظر انداز کردینا کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے۔ حکومت اگر واقعی کسانوں کی بھلائی کی خواہاں ہے توپہلے اسے ان اعتراضات اور خدشات کو دور کرکے کسانوں کو اعتماد میں لیناچاہیے۔ ملک کی موجودہ حالت کسی طویل اور ہنگامہ خیز احتجاج اور مظاہرہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS