ریت مافیا کا دبدبہ اور ہماری لاچاری

0

ابھیشیک آرگنیش
(مترجم: محمد صغیرحسین)

بائیس سالہ مزدور، ونے کمار سون ندی سے ریت نکالنے والے ایک شخص کے یہاں کام کرتا ہے۔ ندی کے کنارے بیٹھ کر اس نے بتایا کہ ’’ہم سب یقینی طور پر گہری مصیبت میں ہیں۔ جب میں کم سن تھا، اس وقت سے لے کر آج تک ندی کی تہہ کم از کم چھ فٹ نیچے چلی گئی ہے۔‘‘ سون ندی، وسط ہندوستان میں گنگا کی جنوبی معاون ندیوں میں جمنا کے بعد دوسری سب سے بڑی ندی ہے۔ بہار کے ہزاروں مزدور روزانہ کم سے کم 300ٹرک ریت نکالنے کے لیے ندی کی تہہ کو کھودتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں دریاؤں کی تہوں کی ریت کے حد سے زیادہ استحصال کی یہ محض ایک مثال ہے۔
ہمارے شہر بڑے پیمانہ پر ریت پر منحصر ہیں۔ پوری نسل انسانی کا ریت کے مجموعی صرفے کا تخمینہ اقوام متحدہ کے ایک مطالعے کے مطابق 400بلین ٹن سالانہ ہے۔ چوں کہ ریت کی مانگ بڑی حد تک سپلائی سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے ریت اور بجری کی کان کنی ایک مستقل خطرہ اور چیلنج بن گئی ہے۔ 2011اور 2014کے درمیان صرف چینیوں نے زیادہ ریت پر مشتمل کنکریٹ کا اس قدر استعمال کیا جس قدر امریکہ نے پوری بیسویں صدی میں نہیں کیا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام(United Nations Environment Programme/UNEP) کی ایک رپورٹ کے مطابق ریت جس رفتار سے فطری طور پر جمع ہوتی ہے، اس سے زیادہ رفتار سے نکال لی جاتی ہے۔ ریت کی عالمی مانگ کی 85سے 90فیصد ریت کانوں اور ریت/بجری کھدانوں سے حاصل کی جاتی ہے اور 10سے 15فیصد دریاؤں اور سواحل سمندر سے نکالی جاتی ہے۔ دریاؤں اور سواحل سمندر کی کھدائی سے سماجی اور ماحولیاتی اثرات بد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی کھدائی کے نتیجے میں کنارے ختم ہوجاتے ہیں،مٹی کٹنے لگتی ہے، شیریں پانی اور سمندری پانی کے جانداروں کو نقصان پہنچتا ہے، آبی ماحولیاتی نظام درہم برہم ہوتا ہے، دریاؤں کے کنارے غیرمحفوظ ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں بار بار سیلاب آتے ہیں اور زیرزمین پانی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
یو این ای پی کی رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چین اور ہندوستان دریاؤں، جھیلوں اور ساحلوں سے ریت نکالے جانے کے اثرات بد کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ شہربسانے کی ہوڑ میں برصغیر ہند میں ریت کی کھپت اس قدر بڑھی کہ پوری دنیا میں اسے دوسرا مقام حاصل ہوگیا۔ ریت کی مانگ میں اضافہ ہونے کے سبب، اسے دوردراز علاقوںمیں برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ اس کا استعمال سڑکیں بنانے، کنکریٹ بنانے، سرامک ظروف بنانے اور دھات کاری میں ہوتا ہے۔ اسمارٹ فون پر جو شیشہ لگا ہوتا ہے وہ تک ریت سے بنایا جاتا ہے۔ دریا سے نکالی جانے والی ریت سب سے اچھی ہوتی ہے۔ ریگستان کی ریت کے ذرّات بیشتر اتنے گول ہوتے ہیں کہ صنعتوں میں بندھن ایجنٹ کے طور پر کام کے لائق نہیں ہوتے اور سمندری ریت بہت زیادہ اکال(Corrosive) ہوتی ہے۔
ریت کی کان کنی دریاؤں کا رُخ بدل دیتی ہے۔ اس سے جنگلی زندگی بھی مجروح ہوتی ہے کیوں کہ یہ جانوروں کے دھوپ کھانے اور انڈے دینے کی جگہوں کو تباہ کردیتی ہے۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی کان کنی انسانوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ چنئی، بنگلورو اور ممبئی جیسے شہروں میں زیرزمین پانی کی سطح میں مسلسل گراوٹ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
دوسرے نمایاں ماحولیاتی مسئلوں مثلاً تبدیلیٔ آب و ہوا یا ہوا اور پانی کی آلودگی وغیرہ کے برعکس ریت کی کان کنی کو وہ توجہ نہیں ملی جس کی یہ مستحق تھی۔ ریت کی کان کنی کے ناقابل برداشت طریق کار نے پورے ہندوستان میں ندیوں کے بہاؤ کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ ریت کی نکاسی نہ صرف پانی کی آلودگی میں اضافے کا باعث ہوتی ہے بلکہ حیاتیاتی تنوع کو بھی ضرر پہنچاتی ہے۔
ہندوستان میں، ریت کی کان کنی کا مسئلہ ہمیشہ سے ایک اختلافی مسئلہ رہا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ مسئلہ کسی نہ کسی سبب کی بناء پر خبروںمیں رہا ہے۔ جب اگست 2013 میں این جی ٹی(National Green Tribunal) نے ایک حکم دیا کہ معقول ماحولیاتی اجازت نامے کے بغیر ریت کی کان کنی پر مکمل پابندی ہوگی، تو میڈیا نے اس مسئلے کو زور و شور سے اٹھایا۔
ہندوستان میں ریت کان کنی پر ہونے والے مباحثوں میں اکثر و بیشتر ’’ریت مافیا‘‘ کا ذکر بار بار ہوتا ہے۔ دوسرے منظم مجرموں کی طرح، ریت مافیا کو بھی مبینہ طور پر سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حاصل ہے۔ ہندوستان کے وفاقی نظام میں، نظم ونسق اور قدرتی وسائل پر پالیسیاں وضع کرنے کا اختیار ریاستوں کو حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاستی سطح کے لیڈران، حصول زر کی خاطر، ریت مافیا کو اپنے صوابدیدی اختیارات(Discretionary Power) کواستعمال کرکے تعاون دیتے ہیں۔ بڑی کمپنیاں بھی اس میدان کار میں بڑا رول ادا کرتی ہیں۔
ریت مافیا کی اندھادھند آمدنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ اکثروبیشتر تشدد پر اتر آتے ہیں، جس کے نتیجے میں، مقامی اہلکاران اُن کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کرنے لگتے ہیں۔ دریاؤں سے ریت کی کان کنی کا درد رکھنے والے اصحاب کا کہنا ہے کہ مافیا، لیڈروں اور کمپنیوں کا گٹھ جوڑ، موثر نگرانی اور ضابطوں کے نفاذ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
ہم اس بڑے ماحولیاتی مسئلے میں کیا راہ عمل اختیار کررہے ہیں؟ جنوری 2020میں، سرکار نے ریت کی ناجائز کان کنی کے ضابطوں کا اجراء کیا۔ یہ ضابطے، 2016کی اُن رہنما ہدایات کے چار سالوں کے بعد منظرعام پر آئے جو قابل برداشت ریت کان کنی کو فروغ دینے کے لیے جاری کی گئی تھیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ضابطوں کے باوجود غیرقانونی کان کنی جاری ہے۔
2020کی رہنما ہدایات کا مقصد دریاؤں اور مختلف انواع کے ساکن کو ریت کی کان کنی سے محفوظ رکھنا ہے۔ ان ہدایات میں اس بات پر اصرار کیا گیا ہے ایسے حساس مقامات کو ’’کان کنی کے لیے ممنوع علاقے‘‘ کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ نئی رہنما ہدایات میں چند چیزوں کے لیے مؤثر تکنالوجیوں مثلاً رات کی تاریکی میں کام کرنے والے ڈرونز وغیرہ کے استعمال کا مشورہ دیا گیا ہے جن میں: ڈرونز کے ذریعہ ریت کان کنی کے مقامات کی نگرانی کرنا، ریت کے ذخیرے کو ازسرنو بحال کرنا، ماحولیاتی اجازت نامے کے بعد ریت کان کنی مقامات کی نگرانی کرنا، ریت کے منبع و ماخذ کی شناخت کے لیے قدم اٹھانا، ایسے مقامات کے ماحولیاتی احتساب کے لیے طریق کار وضع کرنا اور ریت کی ناجائز کان کنی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا۔
ریت کی ناجائز کان کنی کو روکنے میں عوام کو شریک کرنے اور ان سے تعاون لینے کے اچھے اور مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ دریاؤں کا تحفظ اب کرئہ زمین پر موت و زیست کا مسئلہ بن چکا ہے۔ وزارت ماحولیات، جنگلات و تبدیلیٔ آب وہوا کی جاری کردہ ’’رہنما ہدایات 2016‘‘ ملک کے طول و عرض میں جاری، ریت کی بڑے پیمانے کی کان کنی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ امید ہے کہ ’’رہنما ہدایات 2020‘‘ وہ کچھ کردکھائیں گی جو سابقہ ہدایات نہ کرسکیں۔
(بشکریہ: اسٹیٹسمین)
(صاحب مضمون ایک سماجی دانش ور ہیں اور Clinton Global Initiativesکے سابق طالب علم ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS