فلسطین کی حمایت میں اماراتی حکومت کے کلچرل ایوارڈز اور تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان

0

دُبئی: متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے دونوں ممالک کے دوران بہت سے شعبوں میں تعاون کے لیے سمجھوتے بھی طے پا گئے ہیں۔ امارات اور عرب ممالک میں بہت سے دانشور، رائٹر ، مصور اور فنکار اسرائیل امارات امن سمجھوتے پر خوش نہیں ہیں۔ بہت سے فنکاروں اور دانشوروں نے فلسطین کی حمایت میں اماراتی حکومت کے کلچرل ایوارڈز اور تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔
فلسطینی فوٹو گرافر محمد بدارنے شارجہ آرٹ فاؤنڈیشن کو ایک خط لکھ کر کہا ہے ”میں اعلان کرتا ہوں کہ آپ کی منعقدہ نمائش سے اپنا نام واپس لے رہا ہوں۔“برلن میں مقیم بدارنے نے اے ایف پی سے کہا ”ایک زیر تسلط سرزمین کے باسی ہونے کے ناتے ہمیں اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے اور صلح کرنے والوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے۔
“ فلسطینی باشندوں کی جانب سے اس معاہدے کو ’کمر میں چھُرا گھونپنے‘کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
فلسطینی کلچر منسٹر عاطف ابو سیف نے عرب دانشوروں کو بھی تاکید کی ہے کہ وہ عربوں کے دُشمن اسرائیل کو مضبوط کرنے والے فیصلے کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہاں تک کہ اماراتی رائٹر ذابیہ خامس بھی اس سمجھوتے پر ناراض ہیں۔ انہوں نے 13 اگست کو صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل امارات سمجھوتے کے اچانک اعلان پر اسے ایک تکلیف دہ دن قراردیا ہے۔
خامس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”اسرائیل کے ساتھ اماراتی حکومت کے تعلقات ہمیں قبول نہیں۔ اسرائیل تمام عرب دُنیا کا دُشمن ہے۔“متحدہ عرب امارات کی جانب سے شیخ زاید بُک پرائز جیسے سالانہ بین الاقوامی ایوارڈ کی بھی فنڈنگ کی جاتی ہے۔ جس کے جیتنے والوں میں 19 لاکھ ڈالر کے گولڈ میڈلز اور کیش پرائزز بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔
مراکشی مصفنہ زہرہ رمیج کا ناول بھی اس بار شیخ زاید بُک پرائز کے لیے نامزد کی جانے والی کتابوں میں شامل تھا، تاہم انہوں نے اپنی نامزدگی واپس لے لی ہے، جبکہ اس پرائز کی آرگنائزنگ کمیٹی میں شامل مراکشی شاعر محمد بینس نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ جبکہ فلسطینی لکھاری احمد ابوسالم نے بھی انٹرنیشنل پرائز آف عریبک فکشن سے اپنا نام واپس لے لیا ہے جس کے لیے ابوظبی ڈیپارٹمنٹ آف کلچر اینڈ ٹورازم نے فنڈز فراہم کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اماراتی پرائز حاصل کرنا ایک گناہ ہو گا۔“ اس ایوارڈ میں کامیاب رائٹر کو پچاس ہزار ڈالر جبکہ شارٹ لسٹ ہونے والے مصنفین کو 10،10 ہزار ڈالر کی رقم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی فلسطینی اور عرب دانشوروں، صحافیوں اور فنکاروں نے اماراتی تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS