سنگین ایشو کیوں ہے کھانے کی بربادی

0
Image:ArabNews

اقوام متحدہ کے انوائرمنٹ پروگرام نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ بتایا ہے کہ یومیہ کتنا کھانا برباد ہوتا ہے، یہ بھی بتایا ہے کہ اس کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کا کتنا نقصان ہوتا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب 78 کروڑ سے زیادہ لوگوں کے لیے کھانے کی فراوانی نہیں ہے۔ یہ ایشو سنگین اس لیے ہے کہ اس سے پہلے 2008 میں اقوام متحدہ کی طرف سے ہی جاری کردہ ایک رپورٹ سے یہ تلخ حقیقت سامنے آئی تھی کہ بھوک اور اس سے وابستہ وجوہات کی وجہ سے روزانہ 25,000 لوگوں کو جانیں گنوانی پڑتی ہیں۔ ان 25,000 لوگوں میں 10,000 تو بچے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں 2022 میں 1.05 ارب ٹن کھانے کا برباد ہو جانا واقعی ایک سنگین ایشو ہے۔ دراصل دنیا میں امیری تو نظر آتی ہے لیکن دنیا کے زیادہ تر لوگ امیر نہیں ہیں۔ دنیا کے 59 فیصد لوگ وہ ہیں جو روزانہ 5 ڈالر نہیں کما پاتے ہیں۔ ہندوستانی کرنسی میں بات کی جائے تو وہ روزانہ 415 روپے نہیں کما پاتے ہیں۔دوسری طرف کورونا وائرس کے بعد دنیا کے بیشتر ملکوں کی اقتصادیات خستہ حال ہے۔ اس خستہ حالی سے نکلنے کے لیے حکومتیں جو کوشش کر رہی ہیں، اس کا زیادہ اثر عام لوگوں پر ہی پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں گزرتے دنوں کے ساتھ خوراک کے حصول میں ان کی دشواری بڑھتی جا رہی ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کھانے کو برباد ہونے سے بچانے کے لیے تحریک چلائی جائے اور بچائے گئے کھانے کو ان لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے جنہیں ہر رات کھانا نہیں مل پاتا اور بھوکے سونا پڑتا ہے مگر بھوک انہیں راحت افزا نیند بھی نہیں لینے دیتی اور کئی بار کروٹیں بدلتے ہوئے رات گزر جاتی ہے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS