ہم کبھی غیرمتشدد تھے ہی نہیں

0

پنکج چترویدی

جیسا کہ ہر 2 اکتوبر کو ہوتا ہے، بہت سارے اخباروں میں مضامین چھپتے ہیں – گاندھی کے خواب ، ان کو پورا کرنے کے منصوبے، نعرے، اجلاس، انعامات، راج گھاٹ پر گلہائے عقیدت پیش کرنا۔ اس طرح رسم ادا کی جاتی ہے اور یاد کیا جاتا ہے کہ آج اس انسان کا یوم پیدائش ہے جس کی شناخت ساری دنیا میں عدم تشدد کے لیے ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی عدم تشدد کی پالیسی کی طاقت پر ملک کو آزادی ملی اور وہ خود تشدد کا شکار ہو کر ملک عدم کو روانہ ہو گئے تھے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی یا سماج کے بارے میں دیش-دنیا کی کوئی بھی کتاب یا پالیسی پڑھیں تو پائیں گے کہ ہمارا ملک عدم تشدد کے اصول پر چلتا ہے۔ ایک طبقہ اپنے پر ’کمزور جمہوریت‘ کا الزام لگوا کر فخر محسوس کرتا ہے، خود کو گاندھی وادی بتاتا ہے تو دوسرا طبقہ گاندھی کو ملک کے لیے غیر موزوں اور بے کار مانتا ہے اور وہ بھی ’دیش کی گاندھی وادی‘ پالیسیوں کو دہشت گردی جیسے مسئلوں کی وجہ مانتا ہے۔ اصل میں اس مغالطے کو کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی کہ کیا ہم گاندھی وادی یا غیر متشدد ہیں؟ آج تو یہ بحث بھی جم کر اچھالی جارہی ہے کہ اصل میں ملک کو آزادی گاندھی یا ان کے عدم تشدد کی وجہ سے نہیں ملی، اس کا اصل کریڈیٹ نیتا جی کی آزاد ہند فوج یا بھگت سنگھ کی پھانسی کو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کھلا بازار بنی دنیا اور ہتھیاروں کے زور پر اپنی اقتصادی پالیسی کو فروغ دینے کے زمرے میں رکھنے والے ممالک ہمارے عدم تشدد کو نہ تو مانیں گے اور نہ ہی ماننے دیں گے۔
آئے دن کے چھوٹے بڑے واقعات گواہ ہیں کہ ہم بھی اتنے ہی متشدد اور تشدد پسند ہیں جس کے لیے دیگر ممالک کو کوستے ہیں۔ بھروسہ نہ ہو تو ابھی کچھ سال پہلے ہی افضل گرو یا قصاب کی پھانسی کے بعد آئے بیان، جلوس، مٹھائی بانٹنے، بدلہ پورا ہونے، کلیجے میں ٹھنڈک پہنچنے کے متعدد واقعات کو یاد کریں۔ خیال رہے کہ عدالتوں نے ان دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا سنا کر عدالتی فرض ادا کیا تھا-عدالتیں بدلہ نہیں لیتیں۔ اپنے مطالبات کے لیے ہلّر کر کے لوگوں کو ستانے یا عوامی پراپرٹی کا نقصان کرنے، معمولی بات پر قتل کردینے، پڑوسی ملک کے ایک کے بدلے 10 سر لانے کے بیان، ایک کے بدلے 100 کا مذہب تبدیل کروانے، سریندر کوہلی کو پھانسی پر چڑھانے کے لیے بیتاب دکھنے والے جلاد کے بیان جیسے واقعات آئے دن سرخیوں میں آتے رہتے ہیں اور عام انسان کی فطری جبلت اس سے ابھرتی ہے۔ گاندھی کے خوابوں کو پورا کرنے کی باتیں کرنے والے لوگ جب اقتدار میں ہیں تو دہلی کے ہی بڑے حصے میں 15 دن سے صفائی ملازمین کی ہڑتال اور سڑکوں پر کوڑے کے انبار کو گاندھی وادی احتجاج بتانے کا مضحکہ خیز عمل کرنے والے کم نہیں ہیں۔ گاندھی تو کہتے تھے کہ ہڑتال میں کسی دیگر کو پریشانی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ بدلہ پورا ہونے کی بات کرنا ہمارے بنیادی متشدد مزاج کی علامت ہے۔
آخر یہ سوال اٹھ ہی کیوں رہا ہے؟ انسانیت یا انسان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ اگر ایک بار ہم مان لیں گے کہ ہمارے ساتھ کوئی مسئلہ ہے تو اسے نمٹانے کی لازمیت یا متبادل پر بھی غور کریں گے۔ ہم ’منہ میں گاندھی اور بغل میں چھوری‘ کے دوہرے کردار سے ابھرنے کی کوشش کریں گے۔ جب اصولاً مانتے ہیں کہ ہم تو غیر متشدد یا امن پسند سماج ہیں تو یہ قبول نہیں کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے سماج کے سامنے کوئی بڑا مسئلہ ہے جسے نمٹانا ضروری ہے۔ میمن ، افضل گرو یا قصاب کی پھانسی پر آتش بازی یا مٹھائی بانٹنا اتنا ہی قابل مذمت ہے جتنا ان کو دی گئی عدالتی سزاؤں کی مخالفت کرنا۔ جب سماج کا کوئی طبقہ مجرم کی پھانسی پر خوشی مناتا ہے تو یکبارگی لگتا ہے کہ وہ ان بے قصور لوگوں کی موت اور ان کے پیچھے چھوٹ گئے اہل خانہ کے مستقل درد کو نظر انداز کر رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ سماج کا ایک طبقہ بنیادی طور پر تشدد پسند ہے۔ ملک میںآئے روز مظاہرے ، احتجاج، شادی بیاہ، مذہبی جلوس دیکھے جا سکتے ہیں جو اپنے آپ میں مگن لوگوں کی طاقت کے مظاہرے کا وسیلہ ہوتے ہیں اور ان کے عوامی مقامات پر قبضے کی وجہ سے ہزاروں بیمار، مجبور، کسی کام کے لیے وقت کے ساتھ دوڑ رہے لوگوں کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر باعث تکلیف ہوتے ہیں۔ ایسے لیڈر، سنت ، مولوی ان ہزاروں لوگوں کی پریشانیوں کے تئیں بے پروا ہوتے ہیں۔ اصل میں ہمارا سماج اپنے دیگر لوگوں کے تئیں حساس ہی نہیں ہے ، کیونکہ بنیادی طور پر تشدد ہمارے بھیتر کلبلاتا ہے۔ ایسے ہی تشدد، عدم حساسیت اور دوسروں کے تئیں بے پروائی کی توسیع، پولیس، انتظامیہ اور سرکاری ایجنسیوں میں ہوتی ہے۔ ہماری سیکورٹی فورسز صرف ڈنڈے- ہتھیار کی طاقت دکھا کر ہی کسی مسئلے کا حل تلاش کرتی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ گاندھی جی شروع سے ہی جانتے تھے کہ تشدد اور انتقام انسان کی جبلت میں ہے اور وہ اسے بدل نہیں سکتا ۔ 1909 میں ہی جب گاندھی جی مہاتما گاندھی نہیں بنے تھے، ایک وکیل ہی تھے، انگلینڈ سے افریقہ کے سمندری سفر کے دوران ایک تصوراتی قاری سے بات چیت کے توسط سے ’ہند سوراج‘ میں لکھتے ہیں۔ (دی کلیکٹیڈ ورکس آف گاندھی، پرکاشن وِبھاگ، وزارت اطلاعات و نشریات، پارٹ10، صفحہ 27 ، 28 اور 32 ) ’ میں نے کبھی نہیں کہا کہ ہندو اور مسلمان لڑیں گے ہی نہیں۔ ساتھ ساتھ میں رہنے والے دو بھائیوں کے درمیان اکثر لڑائی ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی ہم اپنے سر بھی تڑوائیں گے ہی۔ ایسا ضرور ہونا چاہیے ، لیکن سبھی لوگ غیر جانبدار نہیں ہوتے۔۔۔‘ملک کے ’ غیرمتشدد آئکن‘ گاندھی جی اپنے آخری دنوں کے پہلے ہی یہ جان گئے تھے کہ ان کے ذریعے دیا گیا عدم تشدد کا سبق محض ایک کمزور کی مجبوری تھا۔ تبھی جیسے ہی آزادی اور بٹوارے کی بات ہوئی، پورے ہندوستان میں دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام ہو گیا۔ جون-جولائی 1947 میں گاندھی جی نے اپنے روزانہ کے خطاب میں کہہ دیا تھا ، ’لیکن اب 32 سال بعد میری آنکھ کھلی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب تک جو چلتا تھا وہ عدم تشدد نہیں ہے، بلکہ مدھم رد عمل تھا۔ مدھم رد عمل وہ کرتا جس کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں ہوتا ہے۔ ہم بے بسی سے غیر متشدد بنے ہوئے تھے، مگر ہمارے دلوں میں تو تشدد بھرا ہوا تھا۔ اب جب انگریز یہاں سے ہٹ رہے ہیں تو ہم اس تشدد کو آپس میں لڑ کر خرچ کررہے ہیں۔‘ گاندھی جی اپنے آخری دنوں میں اس بات سے بے حد مایوس بھی تھے کہ جس عدم تشدد کے زور پر انگریزوں کو ملک سے نکالنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، وہ اسے عام لوگوں میں قائم کرنے میں ناکام رہے ۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس تشدد پر گاندھی دکھی تھے، اسی نے ان کی جان بھی لی۔ جس عدم تشدد کے زور پر وہ سوراج پانے کا دعویٰ کررہے تھے، جب سوراج آیا تو دنیا کے سب سے بڑے قتل عام ، لوگوں کے بے گھر ہونے، بھکمری اور لاکھوں لاشوں کو ساتھ لے کر آیا۔

’ میں نے کبھی نہیں کہا کہ ہندو اور مسلمان لڑیں گے ہی نہیں۔ ساتھ ساتھ میں رہنے والے دو بھائیوں کے درمیان اکثر لڑائی ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی ہم اپنے سر بھی تڑوائیں گے ہی۔ ایسا ضرور ہونا چاہیے، لیکن سبھی لوگ غیر جانبدار نہیں ہوتے۔۔۔‘ ملک کے ’غیر متشدد آئکن‘ گاندھی جی اپنے آخری دنوں کے پہلے ہی یہ جان گئے تھے کہ ان کے ذریعے دیا گیا عدم تشدد کا سبق محض ایک کمزور کی مجبوری تھا۔ تبھی جیسے ہی آزادی اور بٹوارے کی بات ہوئی، پورے ہندوستان میں دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام ہو گیا۔

شاید ہمیں اسی دن سمجھ لینا تھا کہ بھارت کا سماج بنیادی طور پر متشدد ہے، پرب- تہواروں میں ہم تلواریں چلا کر، ہتھیاروں کا مظاہرہ کر کے خوش ہوتے ہیں، ہمارے نیتا اعزاز میں ملی تلواریں لہرا کر فخر محسوس کر تے ہیں۔ ہم لوگ کار میں کھرونچ، گلی میں کچرے یا یکطرفہ پیار میں کسی کا قتل کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اپنے مطالبات کی حمایت میں ہمارے احتجاج ، مظاہرے دوسروں کے لیے آفت بن کر آتے ہیں لیکن ہم اسے جمہوریت کا حصہ بتا کر دوسروں کی تکلیف میں اپنا دبائو ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ہم آزادی کے بعد 74 برسوں میں 6 بڑی جنگیں کر چکے ہیں جن میں ہمارے کئی ہزار فوجی مارے جا چکے ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک تہائی حصہ مسلح آندولنوں کی زد میں ہے جہاں سالانہ 30 ہزار لوگ مارے جاتے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز بھی شامل ہیں۔ ملک میں ہر سال 35 سے 40 ہزار لوگ آپسی دشمنیوں میں مر جاتے ہیں جو دنیا کے کسی ملک میں قتل کی سب سے بڑی تعداد ہوتی ہے۔ ہماری فوج اور اندرونی سیکورٹی کا بجٹ صحت یا تعلیم کے بجٹ سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔
سوال پھر کھڑا ہوتا ہے کہ آخر ہم یہ کیوں مان لیں کہ ہم متشدد سماج ہیں؟ ہمیں قبول کرنا ہوگا کہ عدم رواداری بڑھتی جارہی ہے۔ یہ سوال مضمون کے پہلے حصے میں بھی تھا۔ اگر ہم یہ مان لیتے ہیں تو ہم اپنی تعلیم، تربیت، صحت، قوانین میں اس طرح کی تبدیلی کرنے پر غور کر سکتے ہیں جو ہمارے وسیع انسانی وسائل کے مثبت استعمال میں معاون ہوگی۔ ہم فخر سے کہیں گے کہ جس گاندھی کے جس عدم تشدد کے اصول کونیلسن منڈیلا سے لے کر جو بائیڈن تک سلام کرتے رہے ہیں ، ہندوستان کے عوام اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تعلیم ، پالیسیوں میں گاندھی ایک تصویر سے آگے بڑھ کر نفاذ کی سطح پر ابھریں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تشدد پسند رجحان کو خود ہی مرض مانیں۔ ویسے بھی گاندھی کے نشہ کی تجارت نہ کرنے، اناج اور کپاس پر سٹہ نہ لگانے والے اصولوں پر سرکار کی پالیسیاں بالکل برعکس ہیں تو پھر آج عدم تشدد کی بات کرنا ایک نعرے سے زیادہ تو نہیں۔ تبھی دیکھ لیں گاندھی جینتی پر گاندھی آشرم ویران ہے اور کناٹ پلیس پر ان کے نام پر چلنے والا شوروم کھچا کھچ بھرا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS