برانڈیڈ مصنوعات میں ملاوٹ سے ملک کا وقار مجروح: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

یقین زندگی کی بنیاد ہے۔اسے معاشرے میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یقین کسی شخص کا ہو یا کسی ادارے کا،اگر ایک مرتبہ ٹوٹ جاتا ہے تو اُسے پھر سے جوڑنا ناممکن نہیںتو مشکل ضرورہو جاتا ہے۔ اسے پھر سے پانے کے لیے وقت بھی درکارہے۔ خوردونوش کی اشیاء، دوائیاں اور روزمرہ استعمال کی جانے والی چیزوں کا دارومدار بھی یقین پر ہے۔ ملاوٹ خوری کوکسی بھی مذہب میں جائز قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود کچھ لوگ اپنے مفاد کے لیے دوسرے لوگوں کی صحت اور ان کی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ دودھ، پانی، تیل، گھی، کھویا، دوا، آٹا، بیسن، دہی، شہد اور مٹھائی وغیرہ کی ایسی نقل بازار میں موجودہے کہ عام آدمی اصلی اور نقلی کے فرق کو محسوس نہیں کرپاتا۔ اتنا ہی نہیں کچھ مکار لوگ تو نقلی نوٹ کو بھی آسانی سے بازار میں چلا دیتے ہیں اور دکاندار کو اس کا علم تک نہیں ہوتا۔آج کھانے پینے کی شاید ہی کوئی ایسی شے ہو جس میں ملاوٹ نہ کی جا رہی ہو۔ چیزوں کے خالص نہیں ہونے کی وجہ سے لوگوں میں طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔یہ عمل اُس وقت اور بھی تکلیف دہ ہوجاتا ہے،جب اس کھیل میں برانڈیڈ کمپنیاں شامل ہوں۔ اپریل کے آخری عشرے میں پہلے ہانگ کانگ، اس کے بعد سنگاپور اور اَب یوروپی یونین نے مشہورومعروف ہندوستانی کمپنیوں ’ایم ڈی ایچ‘(مہاشیے دی ہٹی) اور ’ایوریسٹ‘ کی کئی مصنوعات سمیت جن 527 فوڈ پروڈکٹس پر پابندی عائد کی ہے، ان میں313سوکھے میوے اور تل سے بنی اشیا، 60قسم کی جڑی بوٹیاں اور مصالحے،48 طرح کے ڈائٹری فوڈ و سپلیمنٹ چیزیں اور 34دیگر مصنوعات شامل ہیں۔جانچ کے دوران ان سبھی میں ایتھیلین آکسائیڈ نام کا کیمیکل مقررکردہ سطح سے زیادہ مقدار میںپایاگیا۔ یوروپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی(ایی ایف ایس اے) نے ستمبر 2023 سے اپریل2024کے درمیان تقریباً ساڑھے تین برس کی مدت میں بڑے پیمانے پر ہندوستانی فوڈ پروڈکٹس کی تحقیقات کی۔ ان میں میوے، جڑی بوٹیوں، مصالحوں اور غذائی خوراک کے علاوہ دیگر متفرق کھانے کی مصنوعات شامل تھیں۔ چوں کہ یوروپی یونین ایتھیلین آکسائیڈ پر 2011میں ہی پابندی لگا چکا تھا،اس لیے اُس کے پاس سخت کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔ یہ مصالحے اور پروڈکٹس ہندوستان کے لاکھوں گھروں، ڈھابوں، ہوٹلوں اور ریستوراںمیں توروزانہ دہائیوں سے استعمال میں لائے ہی جارہے ہیں، کئی غیر ممالک میں بھی ان کی زبردست ڈیمانڈ ہے۔ ایسی صورت حال میںمصالحے اور دیگر مصنوعات میں ملاوٹ سے جہاں ملک کا وقار مجروح ہوا ہے،وہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خالص اورمعیار کے معاملے میں ہم ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں انتہائی کمزوراور بونے ہیں۔ اگر آپ یقین کریں توہم شاید معیار کے اُس پائیدان پر کھڑے ہیں،جو اول،دوم اور سوم کی گنتی میں تو آتا ہی نہیں، کسی دیگر خاص اعدادوشمار میں بھی شامل نہیںہے۔

دراصل ’ایم ڈی ایچ‘ اور ’ایوریسٹ‘ ہندوستان کی ایسی نامی گرامی کمپنیاں ہیں، جن پر عوام اندھا یقین کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں نمبر دو،ملاوٹ یا ڈپلی کیسی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن جانچ میں جو انکشاف ہوا،اُس سے یقین توٹوٹنا ہی تھا۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یوروپی یونین کے فوڈ سیفٹی حکام کی جانب سے کی گئی جانچ میں یہ انکشاف ہوا کہ ہندوستانی فوڈ پروڈکٹس کی ایک قابل ذکر تعداد میں مقررکردہ حد سے زیادہ مقدار میں ’ایتھیلین آکسائیڈ‘ پایا گیا۔یہ کیمیکل ایک قسم کا کینسر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل سنگاپور فوڈ ایجنسی اور ہانگ کانگ کے سینٹر فار فوڈ سیفٹی ریگولیٹر نے ہندوستانی فوڈ پروڈکٹس میں ایتھیلین آکسائیڈ کی مقدار مقرر حد سے زیادہ پائے جانے کا انکشاف کرتے ہوئے ’ایم ڈی ایچ مدراس کری پاؤڈر‘، ’کری مخلوط مصالحہ پاؤڈر‘،’سانبھرمسالہ پاؤڈر‘ اور ’ایوریسٹ فش کری مصالحہ پاؤڈر‘ پر پابندی لگادی۔ ہانگ کانگ فوڈ سیفٹی ریگولیٹر نے صارفین کو خبردار کرتے ہوئے ان مصالحوں کی خرید اور استعمال سے منع کیا ہے۔ ایتھیلین آکسائیڈ ایک انسان ساختہ کیمیکل ہے،جو کسی حد تک میٹھی بو کی حامل، پانی میں آسانی سے گھلنے والی ایک آتش گیر گیس ہے،جسے زرعی مصنوعات کا ذخیرہ کرنے کے لیے انتہائی معمولی مقدار میں استعمال میں لایا جاتا ہے، تاکہ انہیں کیڑوں کے حملے سے بچایا جا سکے۔اس کا استعمال اسپتالوں میں طبی سامان کو جراثیم سے پاک و صاف رکھنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ مصالحوں کو پھپھوندی اور کیڑوں سے بچاکر ایک طویل مدت تک محفوظ رکھنے کے علاوہ ایتھیلین آکسائیڈ کا استعمال کیڑے مارنے والی ادویات بنانے میں بھی کیا جاتا ہے۔ سائنس داں انہیں سرطان(کینسر) پیدا کرنے والا بتاتے رہے ہیں۔ اس سے قبل امریکہ کی جانب سے گزشتہ برس’ایوریسٹ سانبھرمصالحہ‘ اور ’گرم مصالحوں‘ کے نمونوں پر بھی سوالیہ نشان لگائے گئے تھے۔ دوسری جانب مصالحے بنانے والی ہندوستان کی مشہورومعروف کمپنی ’ایم ڈی ایچ‘ کا کہنا ہے کہ اس کی تمام تر مصنوعات پوری طرح سے محفوظ ہیں۔

اس بابت سنگاپور یا ہانگ کانگ کے حکام یا ریگولیٹرزکی جانب سے بھی کمپنی کو کسی طرح کی کوئی شکایت یا نوٹس موصول نہیں ہوا۔ کمپنی کے بارے میں ایسی خبریں ہیں کہ کچھ مصالحوں میں کینسر کا باعث بن سکنے والے کیمیکلز موجود ہیں۔دوسری جانب کمپنی نے صارفین کو یقین دلاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے تمام تر مصالحوں کی ذخیرہ اندوزی، تیاری، عمل، ترتیب اور پیکنگ میں ایتھیلین آکسائیڈ کا استعمال نہیں کرتی۔ ’ایوریسٹ‘ کمپنی نے بھی کچھ اسی طرح کا دعویٰ کر اپنی مصنوعات کو محفوظ بتایا ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں ہندوستان کے علاوہ کئی دیگر ایشیائی ممالک،یوروپ اور امریکہ میں بھی بہت زیادہ مقبول ہیں۔ سنگاپور اور ہانگ کانگ کی جانب سے پابندی کے بعد ’فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا‘(ایف ایس ایس اے آئی) نے بھی کمپنیوں کی مصنوعات کے معیار کو چیک کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ ملک میں تیار کردہ مصالحوں کی نگرانی کرنے والے بورڈ نے بھی ’ایم ڈی ایچ‘ اور ’ایوریسٹ‘ کے پلانٹس کے معائنے کے ساتھ مسائل کی بنیاد تک پہنچنے کا یقین دلایا ہے۔

عالمی تجارت میں تقریباً43فیصد کی حصہ داری رکھنے والا ہندوستان سب سے بڑا مصالحہ پیدا کرنے اور بر آمد کرنے والا ملک ہے۔ ہندوستانی مصالحہ بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2005سے لے کر اب تک ہندوستانی مصالحوں کی برآمد میں30فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ملاوٹ اور معیارات کو متاثر کرنے والے تازہ معاملات سے بین الاقوامی منڈیوں میں ہندوستانی مصنوعات کی شبیہ تو متاثر ہوگی ہی،اس کا اثر ہمارے کاروبار پر بھی پڑے گا۔ فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا نے بلا شبہ ان مصنوعات کے معیار کی جانچ شروع کردی ہے،لیکن یہ صورت حال ملک میں غذائی مصنوعات کی موجودہ جانچ کے عمل پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ سنگاپور اور ہانگ کانگ کے بازاروں میں اگر کوئی مضر یا غیر صحت بخش پروڈکٹ فروخت ہوتا ہے تو یقینی طور پر اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے،مگر گھریلو بازار میں فروخت ہونے والے مصالحوں کی جانچ کا معاملہ بھی تو تبھی اُٹھا،جب غیرممالک میں ان پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس میں شک نہیں کہ اَب پیک شدہ مصالحوں کے بجائے قدرتی طور پر پیدا ہونے والے کھڑے مصالحوں کی جانب لوٹ آنے کی بحث تیز ہو جائے گی،مگردقت یہ ہے کہ بڑھتی ڈیمانڈ، کم دستیابی اور ماحولیات کے اندھادھند استحصال کی وجہ سے قدرتی چیزیں بھی اَب خالص نہیں رہ گئی ہیں۔ اگر آج دوسرے ممالک ہندوستانی مصالحوں پر انگلیاں اُٹھا رہے ہیں یا سوال کھڑے کر رہے ہیں،تو یہ صورت حال مناسب تحقیقات اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔اگر ہمیں اپنے مصالحہ جات کی صنعت کو2030تک10ارب ڈالر تک لے جانے کے ہدف کو حاصل کرنا ہے تو لوگوں کی صحت اور ان کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرنے اور ملک کی شبیہ کو خراب کرنے والے افراد کے خلاف بلاجھجک سخت ایکشن لیے جانے کی ضرورت ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS