یوپی: گورکھ ناتھ مندر کے قریب رہنے والے مسلمان کیوں چھت چھن جانے کی بات سے خوف زدہ ہیں

0
image:http://thewireurdu.com

گراؤنڈ رپورٹ: گزشتہ دنوں گورکھپورانتظامیہ پرگورکھ ناتھ مندر کے پاس زمین کےحصول کے لیےیہاں کے کئی مسلم خاندانوں سے زبردستی ایک کاغذ پردستخط کروانے کا الزام لگا ہے۔ کئی خاندانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نےدستخط تو کر دیےہیں،لیکن وہ اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتے۔

گورکھپورمیں گورکھ ناتھ مندر کے پاس ایک درجن سے زیادہ گھروں کو ‘مندر کی سیکیورٹی کے پیش نظر پولیس فورس کی تعیناتی کے لیے’ہٹانے کامبینہ منصوبہ تنازعہ میں آ گیا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں مکمل جانکاری دیےبغیر دباؤ میں دستخط کرائے گئے جبکہ وہ اپنا گھربار چھوڑکر جانا نہیں چاہتے ،کیونکہ یہی ان کی رہائش اور ذریعہ معاش ہے۔

ادھرضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حفاظتی منصوبہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور کسی سے زور زبردستی نہیں کی جا رہی ہے۔ تمام لوگوں نے بنا دباؤ کے دستخط کیے ہیں۔

وہیں دستخط کرنے والے لوگ ڈرے ہوئے اور فکرمند ہیں۔ اکثر لوگ اپنا فون بند کیے ہوئے ہیں یا اٹھا نہیں رہے ہیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے تین خاندانوں نے کہا کہ ان سے دستخط لیے گئے ہیں۔ تحصیل سے آئے اکاؤنٹنٹ اور قانون گو نے ان کے گھر کی پیمائش بھی کی۔

ایک فیملی کا کہنا تھا کہ ان سے ریونیو اہلکاروں نے مکان کے حصول کے بارے میں بات چیت کی، لیکن انہوں نے کہا کہ جب انہیں تحریری طور پرکوئی نوٹس وغیرہ ملےگا، تبھی وہ جواب دے پائیں گے۔

دراصل یہ معاملہ سب سے پہلے سوشل میڈیا پر 28 مئی کو آیا۔ متاثرین کی رضامندی کو لے کر ایک لیٹڑوائرل ہوا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ‘گورکھ ناتھ مندر علاقے میں سیکیورٹی کے پیش نظر پولیس فورس کی تعیناتی کے لیےحکومتی فیصلے کےمرحلے میں گورکھ ناتھ مندر کے جنوب مشرقی کونے پر گاؤں پرانا گورکھپور تپا قصبہ پرگنہ حویلی تحصیل صدر جن پد گورکھپور واقع ہم درج ذیل افراد اپنی زمین اور عمارت کو سرکار کے حق میں منتقل کرنے کے لیےرضامند ہیں۔ ہم لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہم لوگوں کے دستخط نیچے درج ہیں۔’

اس کاغذ پر11فیملی کے 19لوگوں کے نام، ان کی ولدیت اور موبائل نمبر درج ہے۔ آخری کالم میں لوگوں کے دستخط اور تاریخ ہیں۔ اس کاغذ پر دو فیملی کے چھ لوگوں اقبال احمد و انور احمدولد مرحوم امدادالحسن، محمد اکمل، محمدساحل،محمد سرجیل اورمحمداسرائیل کے دستخط نہیں ہیں اور نہ ان کے موبائل نمبر درج ہیں۔ اس کاغذ پر نہ کسی افسر کا نام ہے اور نہ کوئی مہر ہے۔

سوشل میڈیا پر اس کے وائرل ہونے کے بعدضلع انتظامیہ کی اس کارروائی پر سوال اٹھائے جانے لگے۔ کچھ خبریں بھی میڈیا میں شائع ہوئی ہیں۔

دی کوئنٹ نے ایک رپورٹ اس پر شائع کی اور ایک پورٹل انڈیا ٹمارو نے بھی اس پر خبر شائع کی۔ انڈیا ٹمارو ڈاٹ ان پر خبر لکھنے والے رپورٹر مسیح الزماں انصاری نےالزام لگایا کہ اس خبر کے لیے جب انہوں نے ڈی ایم کا رخ جاننے کی کوشش کی کہ تو ڈی ایم کے وجییندر پانڈین نے ان پر این ایس اے لگانے کی دھمکی دی۔

انصاری نے ٹوئٹ کر کہا، ‘گورکھپور میں گورکھ ناتھ مندر سے لگے مسلم گھروں کو خالی کرنے کی نوٹس دیے جانے کے معاملے میں ڈی ایم سے بات کرنے پر میرے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور افواہ پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے این ایس اے لگانے کی دھمکی دی گئی جس کی شکایت میں نے این ایچ آرسی میں درج کرائی ہے۔’

اس کے بعد 3 جون کی شام کانگریس کے اقلیتی سیل کے ریاستی صدرشاہنواز عالم نے صحافی اور گورکھپور کے ڈی ایم سے بات چیت کا آڈیو جاری کیا۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا،‘گورکھ ناتھ مٹھ کے جنوب مشرقی کونے پرواقع ایک سو پچیس سالوں سے بسے مسلم خاندانوں سے زمین خالی کرنے کی رضامندی کے سلسلے میں انتظامیہ نے زبردستی دستخط کروا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی صحافیوں سے متاثرہ لوگوں نے آن ریکارڈ اس بات کو کہا ہے۔ اس بارے میں میڈیا میں خبریں بھی چل رہی ہیں لیکن لوگوں کو انصاف دلانے کے بجائے ڈی ایم وجییندر پانڈین نہ صرف زبردستی دستخط کرانے کی بات کی تردید کر رہے ہیں بلکہ خبر چلانے والے صحافیوں پر ہی الٹے این ایس اے لگانے کی بات کر رہے ہیں۔’

عالم نے گورکھپور ڈی ایم کو فوراً معطل کرنے اور پورے معاملے کی عدالتی جانچ کرانے کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا، ‘وزیر اعلیٰ کو اپنے عہدہ اور عظیم سنت گورکھ ناتھ جی کی عظمت کا خیال رکھتے ہوئے ایساغیر اخلاقی اور غیر جمہوری کام نہیں کرنا چاہیے۔’

اس معاملے کی جانچ کرنے پر پتہ چلا کہ 27 مئی کو پولیس کے ساتھ صدر تحصیل کے اکاؤنٹنٹ و دیگر ملازمین نے گورکھ ناتھ مندر کے مین گیٹ کے پاس بینک و پوسٹ آفس کے قریب واقع گھروں کی پیمائش کی تھی۔

اگلے دن ملازمین نے ان گھروں میں رہنے والوں سے بات چیت کر سیکیورٹی کا حوالہ دیتے ہوئےیہاں پولیس فورس کی تعیناتی کا ذکر کیا اور کہا کہ گھر اورزمین اس کے لیےلی جائےگی۔ اس کے بدلے سرکل ریٹ سے دو گنا معاوضہ دیا جائےگا۔ اسی دوران ایک کاغذ پر دستخط کرائے گئے۔

صدر تحصیل کے ریونیواہلکار مندر کے ٹھیک پیچھے چہار دیواری کے پاس واقع تین اور گھروں کے لوگوں سے بھی ملے اور اس بارے میں بات چیت کی۔حالاں کہ ان لوگوں سے کسی کاغذ پر دستخط کرانے کی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ اس کے بعد سے ہی اس بات نے زور پکڑ لیا کہ ان گھروں کو سیکیورٹی وجوہات سے خالی کرایا جائےگا۔

گورکھ ناتھ مندر کے آس پاس سیکیورٹی کے کون سے انتظام ہونے ہیں اور اس کے لیے کہاں اور کتنی زمین کی ضرورت ہے، اس کے بارے میں انتظامیہ زیادہ کچھ نہیں بتا رہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ گورکھ ناتھ مندر احاطہ52 ایکڑ میں واقع ہے اور سیکیورٹی کے لیے ایک پولیس چوکی اس کے اندر ہے۔ مندر کے مین گیٹ کے پاس سڑک کی مشرقی پٹری پر گورکھ ناتھ تھانہ واقع ہے۔

مبینہ خط پر محمدفیضان و محمد عمران، محمد سلمان ولدمرحوم فضل الرحمٰن، محمد زاہد، محمدطارق و محمد عاشق ولدمرحوم ساجد حسین،محمد شاہد حسین،محمد شاہر حسین، خورشید عالم، محمد جمشید عالم ولد مرحوم عبدالرحمٰن، مشیر احمدولدمرحوم ناظر احمد، نور محمدولدمرحوم دین محمد کے دستخط ہیں۔

ان میں سے ایک45سالہ نور محمد اپنے پانچ بھائیوں کی فیملی کے ساتھ 2200اسکوائر فٹ والے مکان میں رہتے ہیں۔ اس میں ان کی ٹی وی مرمت کرنے کی دکان بھی ہے۔ اس کے علاوہ کرانہ کی ایک دکان ہے۔

وہ بتاتے ہیں،‘دو تین دن لگاتار اکاؤنٹنٹ اورقانون گو آئے۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات سے آپ لوگوں کا مکان لیا جانا ہے۔ گھر کے بدلے سرکل ریٹ سے دو گنا معاوضہ دیں گے۔ جس کاغذ پر میں نے دستخط کیا وہ سادہ کاغذ تھا۔ وہ کوئی لیٹر پیڈ نہ تھا۔ اس پر کسی افسر کا نام یا مہر نہیں تھا۔’

نور محمد کا کہنا ہے،‘ہم لوگوں کی روزی روٹی اسی گھر سے چلتی ہے۔ میرے دادا کے دادایہاں رہے ہیں۔ اسے چھوڑکر ہم کہاں جائیں گے۔ سرکار معاوضہ تو دے سکتی ہے لیکن روزی روٹی کیسے ملے گی؟’

بارہویں تک پڑھے نور محمد کہتے ہیں کہ وہ زیادہ لکھے پڑھے نہیں ہیں۔ وہ اس معاملے کو ٹھیک سے نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ ‘آپس میں بات چیت ہوئی ہے۔ جیسا سب لوگ کریں گے، ویسا میں بھی کروں گا۔’ان کا کہنا ہے کہ انہیں دستخط کرنے کے لیے ڈرایا نہیں گیا ۔ ‘بابا (یوگی آدتیہ ناتھ)گورکھپورآنے والے ہیں۔ ہم لوگ ان سے مل کر بات کریں گے۔’

مبینہ کاغذ پر دستخط کرنے والے ریٹائرڈ ریلوےاسٹاف71سالہ جاوید اختر کہتے ہیں کہ انہوں نے دباؤ میں دستخط کیا۔ انہیں ایک طرح سے دھمکی دی گئی۔ گھر آئےاکاؤنٹنٹ-قانون گو نے کہا کہ آپ دستخط نہیں کریں گے تو ہمیں دوسرا راستہ آتا ہے۔ جن لوگوں نے دستخط کیا ہے، وہ بھی اپنا گھر دینے کو راضی نہیں ہیں۔ دباؤ میں کچھ لوگ راضی ہونا بتا رہے ہیں۔

جاوید اختر نے بتایا،’27 کواکاؤنٹنٹ اور قانون گو جب ہمارے اور آس پاس کے گھروں کی پیمائش کر رہے تھے تو لگا کہ سڑک کو چوڑا کرنے کامنصوبہ ہے۔ ایسے میں گھر کا دو فٹ کا حصہ سڑک میں آ سکتا ہے لیکن ریونیو اہلکاروں نے کہا کہ پورا مکان لیا جائےگا۔ ہم سے کہا گیا کہ یہاں پولیس چوکی بنےگی۔ ہم سے معاوضہ کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ جس کاغذ پر میں نے دستخط کیا اس پر کمپیوٹر سے پہلے سے سب کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اس پر لکھا ہوا تھا کہ سیکیورٹی وجوہات سے مکان لیا جائےگا۔’

سال2010 میں ریٹائر ہوئے جاوید کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں ان کی جنرل مرچنٹ کی دکان اور بھائی کی آٹا چکی ہے۔ ان کا مکان کامرشیل ویلیو کا ہے۔ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کہیں گھر و زمین نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا، ‘اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ ہمیں یہاں سے نہ ہٹایا جائے۔’یہ پوچھے جانے پر کہ اگر ان کا گھر لیا جائےگا تو وہ کیا کریں گے،جاوید بولے، ‘ہم لڑیں گے۔ ہماری آپس میں بات چیت ہوئی ہے۔انتظامیہ کی جانب سے آگے جیسی پہل ہوگی، ہم ویسا قدم اٹھائیں گے۔’

‘رضامندی والے خط’پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک70سالہ مشیر احمد بنکر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں،‘ پولیس کے ساتھ آئے اکاؤنٹنٹ اورقانون گو نے ہمارے گھر اور آس پاس کے گھروں کی پیمائش کی۔ دوسرے دن پھر وہی لوگ آئے اور کہا کہ سیکیورٹی وجوہات سے یہاں پر کام ہونا ہے۔ اس کے لیے دستخط کر دیجیے۔ میں نے دستخط کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ میرے گھر کو اس کام کے لیے لے لیا جائےگا۔ اس کے بعد سے گھر کے لوگ رو رہے ہیں۔’

انہوں نے آگے بتایا،‘دو جون کو تحصیلدار،اکاؤنٹنٹ اور قانون گو آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہاں زمین کی ضرورت ہے۔ آپ کی رضامندی سے ہی گھر اورزمین لی جائےگی۔ مجھے یہ نہیں سمجھ میں آ رہا ہے کہ سوا سو سال پرانا میرا گھر ہی کیوں لیا جا رہا ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ اپنی آواز کھل کر اٹھانے کے پہلے ہم خود وزیر اعلیٰ سے مل کر اس بارے میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔’

مشیر احمد تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں،‘کہیں میں نے موت کے پروانے پر دستخط تو نہیں کر دیا؟’

مشیر احمد کے مطابق، دو ہزار مربع فٹ کے اس گھر میں ان کے دادا پردادا رہے ہیں۔ پہلے کچی دیوار کا گھر تھا۔ ہم نے ایک ایک اینٹ چن کر اسے پکا کیا۔ اس گھر میں ہمارے دو بھائیوں کی فیملی بھی رہتی ہے۔ میرا ایک بیٹا کتاب کی دکان سے اور دوسرا آٹا چکی چلاکر روزگار چلتا ہے۔ گھر میں چار پاورلوم ہے لیکن اس سے اب کوئی آمدنی نہیں ہوتی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ مہینے سے پاورلوم بند ہے۔ حالت اتنی خراب ہے کہ اس پاورلوم سے سال میں سو ڈیڑھ سو روپے کی بھی آمدنی نہیں ہوتی ہے۔

مشیر کے پاس بھی اس گھر کے علاوہ اور کہیں زمین یا گھر نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں،‘اس گھر کے علاوہ ایک انچ زمین نہیں ہے۔ یہی گھر ہماری رہائش اور ذریعہ معاش ہے۔ ہم اسے کیسے دے سکتے ہیں؟ حکومت کو یہ گھر میری موت کے بعد ہی ملےگا۔’

فیروز احمد اور انتظار حسین کا گھر گورکھ ناتھ مندر احاطہ کے ٹھیک پیچھے ہے۔ پیشہ سے ٹیچر انتظار حسین بتاتے ہیں،’28 مئی کی دوپہر ہمارے پاس تحصیل کے افسراورملازم آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات سے آپ کا گھر لیا جا رہا ہے۔ آپ گھر خالی کر دیجیے۔ آپ کو مناسب معاوضہ ملےگا۔ ہم نے کہا کہ جو بھی آپ زبانی طور پر کہہ رہے ہیں، اس کو تحریری صورت میں دیجیے تبھی ہم کچھ جواب دے پائیں گے۔’

انہوں نے آگے بتایا،‘افسر دو جون کو بھی ہمارے پاس آئے اور سمجھانے کی کوشش کی لیکن میں نے وہی جواب دیا۔ اس کے بعد ہم سے کہا گیا کہ شام چار بجے تحصیل آکر بڑے افسروں سے بات کر لیں لیکن میں وہاں نہیں گیا۔ ابھی تک مجھے کوئی کاغذ نہیں دیا گیا ہے اور نہ کسی کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا گیا ہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ میرے گھر کے پاس افضال احمد اور وصی احمد کے گھر کی بھی پیمائش کی گئی ہے اور ان سے بھی اس بارے میں بات کی گئی ہے۔ پاس میں ایک قبرستان ہے۔ اس کےحصول کی بھی بات کہی جا رہی ہے۔’

انتظار حسین اپنے بڑے بھائی فیروزکی فیملی کے ساتھ 2100مربع فٹ کے اس گھر میں رہتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی گھر میں دکان چلاتے ہیں، جس سے ان کا روزگار چلتا ہے۔ انتظار نے بتایا کہ سرکاراورانتظامیہ کے ذریعے گھر کو لیے جانے کی جانکاری ہونے کے بعد ان کی بھابھی بیمار پڑ گئی ہیں۔

انتظار حسین نے بتایا،‘ہمارا گھر مندر کے جنوب مغربی سمت میں ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ جنوب مشرقی سمت میں11 گھروں کو سرکار لے رہی ہے۔ میں جاکر سب سے ملا اور جاننے کی کوشش کی کہ آخر ہمارے گھر زمین کی سرکار کیوں لینا چاہتی ہے لیکن کوئی صاف جواب نہیں ملا۔ جن لوگوں نے دستخط کر دیا ہے، وہ اب پچھتا رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنا گھر نہیں دینا چاہتے۔’

مبینہ رضامندی کے خط پر دستخط کرنے والے جمشید عالم کو جب فون کیا، تب انہوں نے صرف اتنا کہا کہ سب لوگوں نے دستخط کیا ہے، اس کے بعد انہوں نے فون کاٹ دیا۔شاہد حسین کا فون بند ملا۔ شاہر حسین اور خورشید عالم کے موبائل پر گھنٹی گئی لیکن کال کا جواب نہیں ملا۔ اسی طرح محمد فیضان،محمد عمران، محمد سلمان سے رابطہ کرنے کی کوشش ناکام رہی۔

اس بارے میں جب تحصیلدار صدرسنجیو دکشت نے کہا، ‘سرکاری طور پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے نہ ہی کسی کو نوٹس دیا گیا ہے۔ تحصیل کی سطح پر کوئی پیمائش بھی نہیں کی گئی ہے۔ کوئی پیپر بھی سائن نہیں ہوا ہے۔ یہ منصوبہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘جب کوئی منصوبہ آئےگا تو اصول کے مطابق کارروائی ہوگی۔ ابھی صرف ان کی رائے جانی گئی ہے۔ اس بارے میں ڈی ایم صاحب نے بیان دیا ہے۔ جو کاغذ سوشل میڈیا میں آیا ہے، اس کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔ وہ پیپر باہر کے شخص نے ڈالا ہے۔ آپ لوگوں سے پوچھیں گے تو لوگ یہی کہیں گے کہ ان پر کوئی غیرضروری دباؤ نہیں ڈالا گیا ہے۔’

غورطلب ہے کہ گورکھ ناتھ مندر کے آس پاس کے کئی محلےنورنگ آباد، زاہدآباد، پرانا گورکھپور، ہمایوں پور، رسول پر بنکر اکثریتی ہیں جن کی آبادی تقریباً ایک لاکھ ہے۔ بنکروں کی حالت اس وقت بہت خراب ہے۔

گورکھپور میں1990تک 17ہزار سے زیادہ ہتھ کرگھے تھے لیکن اب بہ مشکل 150 سے بھی کم ہتھ کرگھے بچے ہیں۔سال 1990کے بعد سے بنکروں نے پاورلوم پر کام شروع کیا۔ گورکھپور میں ساڑھے آٹھ ہزار پاورلوم لگے لیکن اب ان کی تعداد کم ہوتے ہوتے تین ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

آئے دن بنکروں کے پاورلوم کباڑ میں بک رہے ہیں۔ بنکر پاورلوم کا کام چھوڑ ٹھیلے اور دکان لگا رہے ہیں۔ مشیر احمد انہی بنکروں میں سے ایک ہیں جو چار پاورلوم کے ہونے کے باوجود بے حد مالی تنگی سے گزر رہے ہیں۔ایسی حالت میں گھروں کا سروے کیا جانا اور سیکیورٹی وجوہات سے اس کےحصول کے منصوبہ کے بارے میں سن کر وہ اپنے مستقبل کو لےکر خاصے فکرمند ہیں۔

(منوج سنگھ گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS