سیاسی مفاد نے عوامی ایشوز کو حاشیہ پر دھکیلا: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

ملک میں ہونے والے انتخابات رائے دہندگان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتے۔اس میںوہ حلقے کے نمائندے کے ذریعہ گزشتہ پانچ برسوں میں علاقے میں کرائے گئے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لے کر انہیںاُمیدو یقین کے پیمانے پر تولتے ہیں۔ اسی کے بعد اگلے پانچ سالوں کے لیے اُسی کے دوبارہ انتخاب یا پھر کسی دوسرے اُمیدوار کو موقع دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر نمائندہ ووٹروں کی کسوٹی پر کھرا اُترتا ہے تو اس کو دوبارہ منتخب کرلیا جاتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اُن کا ووٹ علاقے کی ترقی میں معاون و مددگار ثابت ہوگا۔ اگر نمائندے نے انتخاب میں کامیابی کے بعد علاقے کے لوگوں سے رابطہ رکھنے اور ترقیاتی کاموں میں دلچسپی نہیں لی یا حلقے کے ایشوز کو ایوان میں اُٹھانے کی زحمت نہیںکی تو رائے دہندگان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ عوام کی کسوٹی پر کھرا نہیں اُترنے والے نمائندے کی جگہ کسی دوسرے بہتر اُمیدوار کا انتخاب کریں،جو عوام کے دلوں کی دھڑکنوں کے ارتعاش کو محسوس کرکے غریبوں،مزدوروں،کسانوں اورکمزور طبقے کے لیے کچھ بہتر کرسکے۔تعلیم کے بہتر مواقع، صحت کے بہتر انتظام،بے روزگاروں کو روزگار،روزی روٹی کی آسانیاں اور رہنے کے لیے چھت وغیرہ عام لوگوں کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔

آزادی کے بعد سے اس 18ویں عام انتخابات سے قبل زیادہ تر الیکشن میں رائے دہندگان بنیادی ضرورتوں کے مدنظر ہی ووٹ دیتے آئے ہیں۔ کانگریس، جنتا پارٹی، مخلوط محاذ، یوپی اے اور این ڈی اے کے دورمیں اُتار چڑھاؤ تو آئے،لیکن سیاست کا ایسا چیرہرن اور دُرگتی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ کسی بھی دورحکومت میں سیاسی سطح کا گراف اتنا کبھی نہیں گرا،جتنا گزشتہ ایک دہائی میںنیچے پہنچ گیا۔ گزشتہ کچھ برسوں میں ہندوستان کے سیاسی منظر نامے میں جس تیزی سے تبدیلی آئی ہے،ایسی تبدیلی پہلے کبھی دیکھنے میںنہیں آئی۔گزشتہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات پر نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اب الیکشن صاف ستھرے ماحول میں نہیں لڑے جا تے۔ماحول کو پراگندہ کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی جماعت،ملک کی آزادی میں جس کا کوئی کردار نہیں، جس نے انگلی کٹاکر بھی شہیدوں کی قطار میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی،وہ آج ہندو مسلم، مندر مسجد،ہندوستان پاکستان،دہشت گرد،گھس پیٹھئے ،زیادہ بچے پیدا کرنے والے، سی اے اے اوراین آر سی وغیرہ پر مشتمل بیانات سے ماحول کو گرمائے رکھ کر دو دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے مواقع بھناکر اقتدار میں بنی ہوئی ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز پیدا کرکے اقتدار میں رہنا اس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہندوؤں کو مسلمانوں سے خطرہ بتاکر بی جے پی کوووٹ دینے کی چالیں چلی جاتی ہیں۔زیادہ تر لوگ زعفرانی پارٹی سے خوش نہیں ہیں،لیکن کانگریس،سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ جنتا دل کو اہل خانہ کو پرموٹ کرنے اور ان کے رہنماؤں راہل گاندھی، اکھلیش یادو اورتیجسوی یادو کو خاندانی شہزادہ کہہ کر مخاطب کرنے والے مودی کو جو کہنا ہوتا ہے، وہ کہہ کر رہتے ہیں۔حالاں کہ، شہزادے کے جواب میں پرینکا گاندھی نے اُنہیں محلوں میں رہنے والا شہنشاہ کہہ دیا،لیکن وہ شہزادے اور چائے بیچنے والے شخص کا موازنہ پیش کرنے میں لگے رہے۔ 5؍مئی کو نریندرمودی نے ملائم سنگھ یادو کے گڑھ اٹاوہ میں انتخابی ریلی میں خطاب کے دوران کانگریس اور ایس پی کو ونش وادی(خاندانی) کہتے ہوئے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے انتخابات لڑنے والی پارٹیاں بتایا،جب کہ مودی اور یوگی آپ کے بچوں کے مستقبل کے لیے الیکشن لڑرہے ہیں۔

وزیراعظم کا عہدہ معمولی عہدہ نہیں ہے،لیکن انتخابات میں اب اس کے وقار کو بھی داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔وزیراعظم صرف برسراقتدار جماعت کا نہیں ہوتا،اُس کا تعلق حزب اختلاف اور ووٹ دینے یا نہ دینے والے تمام لوگوں سے ہوتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 21؍اپریل 2024 کو راجستھان کے بانسواڑہ کی انتخابی ریلی میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی بیان بازی کی،اُس نے نہ صرف ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘نعرے کو بے معنی کردیا،بلکہ اس سے ایک عظیم اور جمہوری نظام کے مقدس اور معتبر عہدے کا وقار بھی مجروح ہوا۔ وہ ریلی میں ایک وزیراعظم اور پارٹی قائدکے بجائے آر ایس ایس کے کٹر ذہنیت کے نمائندے کی ترجمانی کرتے نظر آئے۔ان کے اس بیان کو ہندوستان کے ہندی،انگریزی اور اُردو زبان کے اخبارات کے علاوہ ٹی وی چینلس اور سوشل میڈیا میں توجگہ ملنی ہی تھی،انٹرنیشنل میڈیا میں بھی خاصا اسپیس دیا گیا۔ تیسری مرتبہ برسراقتدار آنے کی جدوجہد کررہے وزیراعظم انتخابات میں کامیابی کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔اپنے خطاب میں انہوں نے سابق وزیراعظم اور کانگریس کے رہنما ڈاکٹر منموہن سنگھ کے تقریباً 18برس پرانے بیان کے حوالے سے مسلمانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اُن کے لیے ’گھس پیٹھئے ‘اور’زیادہ بچے پیدا کرنے والے‘ جیسی نامناسب باتیں کہیں۔انہوں نے کہا،’پہلے جب اُن کی سرکار تھی،تب اُنہوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پرپہلا حق مسلمانوں کا ہے۔اس کا مطلب یہ جائیداد اکٹھا کرکے کس کو بانٹیں گے؟جن کے زیادہ بچے ہیں،اُن کو بانٹیں گے!گھس پیٹھیوں کو بانٹیں گے!!کیا آپ کی محنت کا پیسہ گھس پیٹھیوں کو دیا جائے گا؟آپ کو منظور ہے یہ؟ کانگریس کا منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماں اور بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے۔اس کی جانکاری لیں گے اور پھر اسے بانٹ دیں گے اور ان کو بانٹ دیں گے،جن کو منموہن سنگھ کی سرکار نے کہا تھا کہ جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ بھائیوں اور بہنوں یہ اربن نکسل کی سوچ، میری ماں بہنوں سے آپ کا منگل سوتر بھی بچنے نہیں دیں گے،یہ یہاں تک جائیںگے۔‘ حالاں کہ منموہن سنگھ نے مسلمانوں کو پہلا حق دینے کی بات نہیں کہی تھی۔ انہوں نے 2006میں کہا تھا: ’درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئی اسکیمیں لانی ہوں گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان بھی ترقی کر سکیں اور ترقی کے فوائد حاصل کر سکیں۔ ان سبھی کا وسائل پر پہلا دعویٰ ہونا چاہیے۔‘انہوں نے انگریزی میں دیے بیان میں لفظ ’کلیم‘ کا استعمال کیا تھا۔کچھ مخصوص الفاظ کے استعمال کی بنا پر وزیراعظم کی تقریر الیکشن کمیشن سے شکایت کی وجہ بھی بنی۔

کانگریس رہنماؤں نے وزیراعظم پر نفرت کے بیج بونے کا الزام لگایا۔جے رام رمیش کے مطابق ’ عوامی نمائندگی ایکٹ‘، عدالت عظمیٰ کے فیصلوں اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے متعلق 16شکایات الیکشن کمیشن کو پیش کی گئی ہیں۔ دوسری جانب کانگریس کے کئی بیانوں سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی کی جانب سے بھی الیکشن کمیشن کے یہاں شکایات درج کرائی گئی ہیں۔پنجاب میں بی جے پی کی معاون پارٹی شرومنی اکالی دل کے رہنما سکھبیر سنگھ بادل اور چندرابابو نائیڈو وغیرہ نے بھی پی ایم کے بیان کو نامناسب قرار دیا۔ الیکشن کمیشن نے بی جے پی اور کانگریس کے صدور کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا ہے۔ امریکہ کے ’ واشنگٹن پوسٹ‘، چینی نیوز ویب سائٹ ’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘، ’ٹائم میگزین‘، ’نیویارک ٹائمز‘، ’الجزیرہ‘ اور ترکی کے ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ وغیرہ میں وزیراعظم مودی کے تلخ اور نامناسب بیانات شائع ہوئے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی زبانی جنگ جس سطح پر آچکی ہے،وہ شاید سب سے نچلی ہے۔اس سطح کی سیاست نے عوام کے ایشوز کو حاشیے پر پھینک دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں عوامی خدمات کے جذبے اور ان سے کیے وعدوں کو بھول کر صرف اور صرف اپنے مفاد کے حصول میں لگ گئی ہیں۔ان کا مقصد کسی بھی طرح سے الیکشن میں فتح حاصل کرنا ہے۔اس کے لیے چاہے بدزبانی اور مسلمانوں کا کسی بھی طرح استعمال کیا جائے۔2011کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 17.22کروڑ مسلمان اور 96.63 کروڑ ہندو ہیں، پھر بھی مسلمانوں کا خوف دکھا کر اور ہندوؤں کو خطرے میں بتا کر جس اکثریتی طبقے کے ووٹ بٹورے جاتے ہیں، انہیں بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS