بے روزگاری کی صورتحال بحرانی کیفیت کی عکاس

0

صبیح احمد
گزشتہ ہفتہ ایک خبر آئی تھی کہ شمالی ہند کی ایک بڑی اور اہم ریاست مدھیہ پردیش میں قانون کی ڈگری رکھنے والے ایک نوجوان نے ڈرائیور کی نوکری کے لیے درخواست دی تھی۔ اس خبر پر روز گار اور بے روزگاری کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین کی نظر ضرور پڑی ہوگی اور وہ یقینا حیرت زدہ ہو گئے ہوں گے۔ لیکن صورتحال کا مطالعہ کیا جائے تو اب یہ کوئی حیرت کی بات نہیں رہ گئی ہے۔ اب تو پوسٹ گریجویٹس، انجینئرنگ، ایم بی اے جیسی ڈگریاں رکھنے والے نوجوان بھی اس طرح کی معمولی نوکریوں کے لیے قطار میں شامل ہو رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ ایک معمول بن گیا ہے۔ اب لوگوں کو صرف نوکری چاہیے، اس بات سے قطع نظر کہ اس کی ڈگری کیاہے اور نوکری کس درجے کی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ مذکورہ لا گریجویٹ کو ڈرائیور کی وہ نوکری مل ہی گئی ہوگی۔ یہ بات کسی مخصوص ریاست یا خطہ کی نہیں ہے۔ تقریباً پورے ہندوستان کی صورتحال ایسی ہی ہے۔
یہ حالت ہندوستان میں شدید بے روز گاری کی صورتحال اور بحرانی کیفیت کی عکاسی کرتی ہے۔ کووڈ نے ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے جو ابھی تک طویل لاک ڈاؤن کے منفی اثرات سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔ معیشت کی بہتری کے اشارے مل تو رہے ہیں اور اس کی وجہ کافی مہینوں سے رکی ہوئی مانگ میں اضافہ اور حکومت کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات ہیں لیکن ملک سے روزگار کے مواقع اب بھی غائب ہیں۔ ایک آزاد تھنک ٹینک ’سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی‘ (سی آئی ایم آئی) کے مطابق ہندوستان کی بے روز گاری کی شرح دسمبر میں 8 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ یہ 2020 کے مقابلے 7 فیصد اور2021 کے تمام مہینوں سے بھی زیادہ رہی۔ ہندوستان کی تاریخ میں بے روزگاری کی شرح کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی، خاص طور پر گزشتہ 3 دہائیوں میں بشمول 1991 کے، جب ہندوستان کی معیشت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ اس کے پاس درآمدات کے لیے زرمبادلہ نہیں رہا تھا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو بے روزگاری کا سامنا ہے لیکن ہندوستان میں یہ شرح بہت سی ترقی پذیر معیشتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تنخواہ دار ملازمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سی نجی کمپنیوں اور اداروں نے عالمی وبا کے دوران اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے نوکریوں میں کٹوتیاں کی ہیں۔
معیشت میں مندی کی وجہ پچھلے کچھ برسوں میں معاشی پالیسی سے متعلق کیے گئے متعدد فیصلے ہیں۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی یعنی گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (پورے ملک میں ایک بالواسطہ ٹیکس کا نظام) اور کورونا وائرس کی بدانتظامی جیسے سبھی فیصلوں نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ ان سبھی فیصلوں کا اثر عام لوگوں پر ہوا ہے جنہیں بڑی صنعتوں کے برعکس عام طور پر حکومت کی طرف سے بمشکل ہی طویل مدتی مدد ملتی ہے۔ ملک میں شرح نمو خراب ہونے کے باوجود فی الحال زرعی شعبہ مثبت صورتحال میں ہے جس کی شرح نمو 3.5 فیصد ہے لیکن جس طرح سے حکومت کا کاشتکاروں کے لیے رویہ ہے، مثال کے طور پر کسانوں کے احتجاج کے سلسلے میں، اس شعبہ کا متاثر ہونا تابوت میں آخری کیل کی مانند ہے۔ معاشی بدحالی کے دوران بدترین متاثر ہونے والوں میں غیر رسمی (انفارمل) ملازم بھی شامل ہیں جن کی تعداد ملک کی لیبر فورس کی تقریباً 80 فیصد ہے۔ گزشتہ برسوں میں متعارف کروائے گئے فیصلوں جیسے کہ نوٹ بندی نے انہیں غیر معمولی طور پر متاثر کیا کیونکہ غیر رسمی شعبہ تقریباً پوری طرح سے نقد لین دین پر منحصر ہے۔ ماہرین اور تاجر معاشی بدحالی کا ذمہ دار گزشتہ کچھ برسوں میں حکومت کے ذریعہ متعارف مختلف پالیسیوں کو مانتے ہیں۔ 2016 میں ہونے والی نوٹ بندی نے غیر رسمی شعبہ (انفارمل سیکٹر) کو تو متاثر کیا ہی، اس نے رسمی شعبہ کو بھی غیر معمولی طور پر متاثر کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس فیصلہ نے ملک میں چلنے والے زیادہ تر نقد نوٹوں کو مسترد کر دیا جبکہ ملک میں بیشتر لوگ نقد سودا کرتے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد حکومت نے جی ایس ٹی کا اعلان کیا جسے عوام کے سامنے ٹیکس نظام میں ایک بڑی اصلاح کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کا مقصد بالواسطہ ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا تھا کیونکہ پہلے مختلف ریاستوں میں مختلف ٹیکس تھے لیکن اس کے متعارف کروانے کے فوراً بعد ہی متعدد تبدیلیوں نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا۔ ٹیکس جمع کرنے اور ریاستوں میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی تھی لیکن جب معاشی حالات خراب ہوئے تو اس نے ریاستوں کا پورا حصہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس سے ریاستوں کی معاشی حالت بھی متاثر ہوئی۔
ہندوستان کے قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020-21 میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 7.3 فیصد کی کمی آئی ہے جو کہ آزادی کے بعد سے سب سے بدترین شرح ہے۔ کووڈ 19- کی وبا سے پہلے 2019-20 میں جی ڈی پی میں نمو کی شرح 4 فیصد تھی حالانکہ ہندوستان کی معیشت میں آزادی کے بعد کم از کم 5 مرتبہ انتہائی گراوٹ آئی ہے مگر حالات ایسے کبھی نہیں رہے۔ گزشتہ بحرانوں کی وجوہات زیادہ تر قدرتی آفات جیسے سیلاب اور خشک سالی یا توانائی کی کمی تھی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کی وجہ زیادہ تر انسانی غلطیاں ہیں۔ نوکریوں میں شدید کمی کی وجہ صرف عالمی وبا نہیں ہے۔ ہندوستان میں جو صورتحال دیکھنے میں آئی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پالیسی سازی میں چھوٹے کاروبار اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بے روزگاری کی صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے کیونکہ ملک کی شرح نمو میں مثبت اشارے کے باوجود نچلے طبقہ کے پاس دیگر ممالک کے مقابلے بہت ہی کم کام ہے۔ حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے، روزگار پیدا کرنے اور کارکنوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ دور حکومت میں تقسیم اور نفرت کی سیاست عدم استحکام اور بداعتمادی کا باعث بنی رہی ہے جو کہ معاشی ترقی کے لیے سب سے نقصان دہ ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا کوئی بھی اقدام اب تک پیداوار اور نوکریوں میں تیزی کا باعث نہیں بنا جس کی ایک وجہ طلب میں کمی ہے۔ قلیل المدت اقدام کے طور پرہندوستان کو شہروں میں رہنے والے اور اپنی زندگیوں میں ذرائع معاش کی جدوجہد کرنے والے 20 فیصد طبقے کے لیے فوری طور پر روزگار کے یقینی مواقع فراہم کرنے کے منصوبے یا ان خاندانوں کی نقد رقوم کی منتقلی کے ذریعہ مالی مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس مشکل دور میں اس طرح کے منصوبے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ طویل المدت اقدام کے تحت ہندوستان کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ سب کام کرنے والے افراد کی کم از کم ماہانا اجرت مقرر ہو اور انہیں سوشل سیکورٹی کی سہولیات میسر ہوں۔
’این ایس او‘ کے حالیہ اعداد و شمار اگرچہ معاشی بدتری کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں مگر یہ اعداد و شمار اب بھی پوری طرح سے قابل اعتبار نہیں۔ معیشت اور اشتہار میں کافی فرق ہوتا ہے۔ اگر اس کا تنقیدی طور پر جائزہ لیا جائے تو حالات اور بھی خراب نظر آسکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS