دو دہائی میں دو بڑی کامیابی!

0

مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کرنا ایک بات ہے، اس کے لیے تشدد کا سہارا لینا دوسری بات ہے۔ جمہوری نظام اور مہذب سماج میں شہریوں کے لیے احتجاج کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے بلکہ احتجاج کو ان کا حق مانا جاتا ہے مگر طاقت کے زور پر بات منوانے کے لیے تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔ تشدد کا راستہ اندھیری سرنگ کی طرف جاتا ہے جہاں مطالبات تاریکیوں کی نذر ہو جاتے ہیں اور بروقت نہ سنبھلنے پر مطالبہ کرنے والے لوگ بھی انہی تاریکیوں میں گم ہو جاتے ہیں، اس لیے کاربی آنگ لونگ معاہدہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس معاہدے پر دستخط ہو جانے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت مسلح گروپوں کو امن کی اہمیت سمجھانے میں کامیاب رہی ہے جبکہ 6 مسلح گروپوں کو معاہدے کے لیے تیار کرنا واقعی بڑی بات تھی، خاص کر ایسی صورت میں یہ کام آسان نہیں تھا جب مسلح گروپوں کی تاریخ پرتشدد ہو اور وہ تین دہائی سے زیادہ پرانی ہو۔ گروپ کے لوگ قتل، نسلی تشدد،اغوا اور ٹیکس وصولی کے حوالے سے 1980 کی دہائی کے آخری دنوں سے ہی بدنام رہے ہوں مگر گفت و شنید سے مسئلہ حل کرنے کی حکومت کی کوششوں سے یہ ممکن ہوا کہ رواں سال کے فروری میں اس وقت کے آسام کے وزیراعلیٰ سربانند سونووال کے سامنے پیپلز ڈیموکریٹک کونسل آف کاربی لونگری، کاربی لونگری این سی ہلس لبریشن فرنٹ، کاربی پیپلز لبریشن ٹائیگر، کوکی لبریشن فرنٹ اور یونائٹیڈ پیپلز لبریشن آرمی کے 1,040 مسلح جنگجوؤں نے ہتھیار رکھ کر امن کی راہ پر چلتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے کے اشارے دیے تھے اور آج حکومت نے ان کے 80 فیصد مطالبات مان کر انہیں یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ قومی دھارا میں آئیں، اپنی اور اپنے لوگوں کی ترقی کے خواب کی تعبیر حاصل کریں، اپنے علاقے اور آسام کو زیادہ پرامن، زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ خوش حال بنانے میں اپنا قیمتی کردار ادا کریں۔
گزشتہ 12 برس میں آسام کے حوالے سے حکومت کی یہ دوسری بڑی کامیابی ہے۔ اس سے پہلے 2009 میں بوڈو معاہدہ ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے آسام کی سالمیت پر منڈلاتا خطرہ کسی حد تک ہٹا تھا۔ اس معاہدے نے یہ امید بندھائی تھی کہ آنے والے وقت میں کاربی معاہدہ کرنے میں بھی سرکار کامیاب ہو جائے گی، آسام پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا اور اس کی ترقی کو پر لگ جائیں گے۔ آج دو دہائی کے اندر حکومت کو آسام کے اندرونی تنازعات کو حل کرنے میں یہ دوسری بڑی کامیابی اس وقت ملی جب آسام سرکار اور 6 باغی تنظیموںکے مابین کاربی آنگ لونگ معاہدے پر دستخط ہوگئے۔اس معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اس پر دستخط کیے جانے کے موقع پر وزیرداخلہ امت شاہ خود موجود تھے۔ شاہ نے بجا طور پر کاربی آنگ لونگ معاہدے پر دستخط کو تاریخی بتایا ہے۔ ان کی یہ بات امید افزا ہے کہ ’مودی حکومت آسام کی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے دہائیوں پرانے مسئلوں کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ‘
توقع رکھی جانی چاہیے کہ بوڈو معاہدے کے بعد کاربی آنگ لونگ معاہدہ ان تنظیموں اور مسلح جنگجوؤں کے لیے تحریک دینے والا بنے گا جو اب تک یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ مطالبات گولیوں اور بموں سے حل ہو سکتے تو دنیا کب کا بارود کا ڈھیر بن چکی ہوتی، مسلح گروپ مطالبات منوانے کے لیے کبھی تھک ہارکر مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھتے، تشدد کی راہ پر چلتے ہوئے ہی اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے۔ بوڈو اور کاربی آسام سے علیحدگی اختیار کرناچاہتے تھے، ان کی چاہت کی بھینٹ نہ جانے کتنے لوگ چڑھ گئے۔ اچھی بات یہ ہے کہ دیر سے ہی سہی، مسلح گروپوں نے مذاکرات کی اہمیت سمجھ لی، یہ بات ان کی فہم سے بالاتر نہیں رہی کہ مسئلوں کا حل ایک ریاست کی تقسیم اور نئی ریاست کی تشکیل میں تلاش کرنے کے بجائے ترقیاتی کاموں میں تلاش کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1,500 کروڑ روپے کے پیکیج کے علاوہ اپنے علاقے میں ایم پی؍ایم ایل اے کی نشستوں میں اضافے کی مانگ رکھی تھی اور اس مطالبے کا اظہار کیا تھا کہ کاربی زبان آٹھویں شیڈیول میں شامل کی جائے۔ وزیرداخلہ امت شاہ نے یقین دلایا ہے کہ سرکار کاربی ریجن میں ترقیاتی کاموں پر 1000 کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ 500 کروڑ روپے ریاستی سرکار دے گی اور 500 کروڑ روپے مرکزی سرکار دے گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ کاربی ریجن میں ہی نہیں بلکہ آسام میں مجموعی طور پر حالات میں بہتری آئے گی، لوگوں کی وہ سبھی دیرینہ خواہشیں پوری ہوں گی جن کے لیے قیام امن ضروری ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS