جنہیں راستے نہ ملے وہ بھٹک کر رہ گئے

0

زین شمسی

اس مضمون کا عنوان یو ں تو یہ ہونا چاہیے کہ ’ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے ‘۔ مگر یہ سوچ کر عنوان بدلاکہ ابھی شاید اس محاورے کو سچ ہونے میں ذرا دیر لگے اور شاید کبھی ایسا بھی ہو کہ اس محاورہ کے اطلاق کاوقت ہی نہیں آئے۔ راستہ کی تلاش ہے،کشمکش کی صورت ہے، وہی صورت جس کی طرف غالب صاحب نے اشارہ کیا تھا کہ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر…تو اسی کشمکش میں مبتلا ہیں ہم اور ہماری قوم بھی۔ کوئی وسیم رضوی کود کر تیاگی بن جا رہاہے تو کوئی نصرت جہاں اپنے کیے پر پچھتاتی نظر آتی ہے۔ کہیں اہل ہنود اتراتے نظر آتے ہیں تو کہیں اہل اسلام ڈگمگاتے نظر آتے ہیں۔ کہیں عقائدپرستی کی برتری نظر آتی ہے تو کہیں مفاد پرستی کا پلڑا بھاری پڑتا نظر آتا ہے۔ دنیا بدل رہی ہے اور کئی طریقے سے بدل رہی ہے۔ اس کا اعتراف جتنی جلدی کر لیں کر لینا چاہیے، کیونکہ وقت کی رفتار قوموں کی رفتار سے بہت تیز ہوتی ہے۔قومیں ایک دوسرے کی مدد عقائد کی وجہ سے نہیں بلکہ رابطے کی وجہ سے ہی کر پا رہی ہیں۔ بین الاقوامی ضرورتوں کے مطابق ہی کوئی بھی ملک یا قوم یا وہاں کے باشندے کسی بھی حالات یا واقعات پر ردعمل دینا چاہتے ہیں۔ اپنا نفع نقصان سمجھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ لیتے ہیں۔فلسطین کی مدد اب تک نہیں ہو سکی، عراق کو تن تنہا چھوڑ دیا گیا، افغانستان پر اسلامی ممالک خاموش ہی رہتے ہیں۔ خلیج کی خارجہ پالیسی میں اسلامی افکار کا کوئی ردعمل نہیں ہوتا۔ترکی کی اسلامی حمیت کو عالمی اسلامی اسٹیج پر مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سعودی عرب کو اسلامی دنیا کی پریشانیوں سے کوئی خاص رغبت نہیںرہی۔ ایران کو عالمی پیمانہ پر تنہا کر دیا گیا اور سنی ورلڈ خود اس سے الگ ہوگیا۔ ایسے میںاسلامی اسٹیج کی مضبوطی باقی نہیں رہی اور ہر ملک کا اہل اسلام اپنے طور پر یا تو مضبوطی کی کوشش کر رہا ہے یا پھر کمزوری کادرد جھیل رہا ہے۔
ہندو بنام ہندوتو اور اسلام بنام مسلمان جیسی فکری جہات ہمارے ملک میں بھی ایک موضوع کی طرح سر اٹھا رہے ہیں۔ ہندو بنام ہندوتو کی حقیقت بہت دیر میں راہل گاندھی کے عقل میں آئی، خوش آئند بات یہ ہے کہ کم سے کم آئی تو، کہا جاسکتا ہے کہ یہ بات تو تبھی تمام ہندوستانیوں کی سمجھ میں آ چکی تھی جب آزادی کی لڑائی میں سنگھ پریوار نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے تھے۔ یہ بات تب بھی سمجھ میں آجانی چاہیے تھی کہ جب ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ شائع ہو ئی اور اس وقت بھی سمجھ میں آ جانی چاہیے تھی کہ جب ہندو راشٹر کے تصور میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہ بنانے والی تنظیم ہندوستان میں بر سر اقتدار اس لیے آگئی کہ ہندوستان کے ایک طبقہ کو مودی میں ہندو ہردئے سمراٹ کی جھلک دکھائی دی۔ اتنے سارے ثبوت و شواہد کے بعد اب راہل گاندھی پر یہ عقدہ کھلا کہ اس ہندوستان میں مسلمانوں کی خوشامد سے زیادہ ہندوؤں کو اس بات کے لیے راضی کیا جانا زیادہ ضروری ہے کہ ہندوتو اور ہندو کا جو تضاد ہے وہی کانگریس اور بی جے پی کا تضاد ہے۔ راہل یہ بات ہندوؤں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں وہ جانیں لیکن میری چھوٹی سی سمجھ یہ بتاتی ہے کہ بھارت مہابھارت سے مہان نہیں ہوا بلکہ راماین سے ہوا ہے۔ بھکتی اور ویداس کے اہم رول کی وجہ سے ہندوستان کی شناخت قائم ہوئی، اس دھرم میں دوسروں کو سمیٹنے کی گنجائش نے اسے مہان بنایا ہے۔ آج ہندوؤں کے ہاتھ میں لاٹھیاں پکڑا دی گئیں۔ لنچنگ کو قابل تعریف عمل قرار دیا گیا اور ایک قوم کے لوگوں کو دیش میں ہی دشمن بنا کر پیش کر دیا گیا۔ ہندو تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک وہ جو ہندوتو کے نام پراصل ہندو مذہب کو بدنام کر رہے ہیں ایک وہ جو اصل ہندو کے معنی کو سمجھانے سے خوف کھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہندوازم کی ایسی بدنامی ہندوستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی، حتیٰ کہ ہزار سالوں کی غلامی نے بھی ہندوتو کا یہ روپ کبھی نہیں دیکھا جو اب سارے میں پھیلتا جارہا ہے۔ اب رام کے نام پر پرشو رام کو ترجیح دی جا رہی ہے اور یہ سب صرف اسی لیے کہ اقتدار کی ہوس میں ہندوستان کو اس کی قدیم روایت سے بھٹکا دیا جائے۔امریکہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف بل کا پاس ہوجانا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہب کی شدت پسندی نے خود اپنے مذہب کو بدنام کرنا شروع کر دیا ہے۔ راہل گاندھی نے اس جڑ کو تو پکڑا ہے ، لیکن یہاں تک آتے آتے انہوں نے بہت دیر کر دی۔
علما اور دیندار طبیعت لوگوں کو بھی میڈیا کی لت پڑتی جارہی ہے۔سیاست کا بخار چڑھ رہاہے یا پھر سیاسی لوگوں سے ملّی بھگت کا نشہ سر چڑھ رہا ہے۔متحدہ مسلمانوں کی رگوں میں مسلکی کیڑااس طرح رینگتا ہے کہ انہیں نفرت کے سوا کچھ نظر نہیںآتا ہے۔ مسلمان کو مسلمان بننا آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔اس کا اثر یہ ہوا کہ حوصلے پست ہو چکے ہیں۔ حلقوں میں ایسے بٹے کہ ہلکے ہو گئے۔اب ایسی صورت میں اگر سیاسی جماعتیں انہیں بے وقوف بنادیتی ہیں، قصور ان کا نہیں ہے۔ سماجی گراوٹ کا سیدھا رابطہ سیاسی بے وقعتی سے ہے۔ زمانہ کھیل کھیلتا رہا اور ہم اسے کھیل سمجھتے رہے۔ اب پوچھتے ہیں کہ آخر حل کیا ہے تو ان کے لیے اب بھی وہی شعر دہراتا ہوں کہ
حوصلے کیوں پست ہیں ایمان کے ہوتے ہوئے
پوچھتے ہو راستہ قرآن کے ہوتے ہوئے
قرآن خوانی ایصال ثواب اور وسیلہ ثواب کا ذریعہ ضرور ہے مگر قرآن فہمی نہ صرف دین بلکہ دنیا کو سنوارنے کا سب سے بڑا مینی فیسٹو ہے۔ قرآن پاک کو عیسائیوں اور یہودیوں نے خوب پڑھا ہے کہ اس میں زندگی کے تمام جہات پوشیدہ ہیں۔ سائنس ، تاریخ اور جغرافیہ ، فلسفہ اور اخلاقیات کی سب سے بڑی کوئی کتاب ہے تو یہی ہے، یہی ہے۔ہم نے بھی قرآن پاک خوب پڑھا،لیکن اسے سمجھ ہی نہ سکے۔ کیونکہ یہ سمجھا دیا گیا کہ اس پاک قرآن کو پڑھنا ثواب ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ یہ بحر العلوم ہے۔ دنیا کے تمام مسائل کا حل اس میں پوشیدہ ہے۔ہم نے کتنی کتابیں پڑھی ہوں گی۔ دنیا کے ہر نصاب کا مطالعہ کر لیا ہے۔ اس کے لیے ہمارے پاس بہت سارا وقت ہے ، مگر قرآن کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ایک صاحب نے بہت سچی بات کہی کہ اگر آپ کو کوئی بیش قیمت کاغذ گھر میں کسی محفوظ جگہ پر رکھنا ہے تو قرآن میں رکھ دیجیے، یہ کتاب ہر گھر میں ہوتی ہے ، لیکن اسے پڑھتا کوئی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس سے بڑا طنز اور کیا ہوگا۔قرآن فہمی آج کی سخت ضرورت ہے۔ اس کو تسلیم کریں گے تو فلاح آپ کی منتظر ہے۔ہماری ہی قوم ایسی ہے کہ جو پانچ وقت کی نماز کو بڑی عقیدت کے ساتھ پڑھتی ہے ،لیکن اس نے کیا پڑھا اس کا مطلب نہیں جانتی۔اس رویہ نے مسلمانوں کو ہی نہیں اسلام کوبھی کمزور کرنے کا کام کیا ہے اور یہ جو حلقے بنے ہیں، اس میں اس رویہ کابہت اہم رول رہا ہے۔
جس طرح مسلمانان ہند مسلکی تنازع میں پھنس کر اسلام کو کمزور کرنے میں جڑے ہیں، اسی طرح اہل ہنود اقتدار کی ہوس میں ہندو کی مہیما کو تار تار کرنے میں مصروف ہیں۔اسی لیے میں نے کہا کہ عالمی پیمانے پر نہ صرف مذاہب کے افکار میں تبدیلی آئی ہے بلکہ قوموں کی ترجیحات بھی بدلی ہیں۔یہ وقت انتہائی سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے کا ہے، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS