ترقی کی یہ راہ زہریلی

0

ارون کمار

آلودگی کے تعلق سے ابھی ہر طرح کی باتیں موضوع بحث ہیں۔ مگر ان سبھی مباحثوں میں جس ایک پہلو کو نظرانداز کیا جارہا ہے، وہ ہے ہمارا ترقی کا ماڈل۔ آلودگی بڑھانے میں اس کا بڑا رول ہے۔ یہ فزیکل ڈیولپمنٹ کو انسانی ترقی کاپیمانہ مانتا ہے۔ تقریباً 150-200سال پرانا یہ ماڈل زیادہ سے زیادہ پیداوار پر زور دیتا ہے، تاکہ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو اور وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فزیکل فیسیلیٹیز(جسمانی سہولتیں)فراہم کرسکیں۔ اس میں ’مور اِز بیٹر‘ (جتنا زیادہ، اتنا اچھا) کا تصور منسلک ہے۔ چوں کہ معاشیات کے اصولوں کے مطابق، ہماری سمجھداری اسی میں ہے کہ ہم خود کی بہتری کرتے رہیں، اس لیے ہم ہمیشہ اپنی سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کی تکمیل میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
اس وجہ سے ہر انسان زیادہ کھپت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کھپت بڑھنے کا مطلب ہے آلودگی میں زیادہ اضافہ۔ بازار نے ہماری سوچ اتنی کُند کردی ہے کہ اگر ہم کھپت میں اضافہ نہیں کرتے تو یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ اپنی ترقی نہیں کررہے ہیں۔ یہ سوچ پہلے ترقی یافتہ ممالک تک محدود تھی،لیکن بعد میں تیسری دنیا(ہندوستان بھی اس میں شامل ہے) کے خوشحال طبقوں کی بنی اور اب یہ رِس کر متوسط طبقہ تک پہنچ گئی ہے۔
دہلی کا معاشرتی اور معاشی سروے بتاتا ہے کہ یہاں 90فیصد کنبوں کا ماہانہ خرچ 10ہزار روپے بھی نہیں ہے۔ اتنی کم رقم میں ان کی بنیادی ضرورتیں ہی جیسے تیسے پوری ہوپاتی ہوں گی،، اس لیے اپنے ملک میں کھپت بنیادی طور پر خوشحال طبقہ کررہا ہے۔ دنیا کی سطح پر یہ طبقہ امیر ممالک کا ہے۔ یہ ’ری سائیکل‘ میں یقین نہیں کرتا۔ اس کے لیے پروڈکٹ خراب ہونے کا مطلب نئے پروڈکٹ کی خریداری ہے۔ اسی لیے کاربن فٹ پرنٹ میں اس کی حصہ داری زیادہ ہے اور غریبوں کی بہت کم۔ مشکل یہ ہے کہ سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی مالدار طبقہ اپنی کھپت کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری آب و ہوا جان لیوا ہوگئی ہے، ندیاں اپنی شفافیت کھوچکی ہیں اور زمین کا استحصال بڑھنے لگا ہے۔ ہم چاہیں تو ان میں بہتری لاسکتے ہیں۔ بیشک، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا اثر ہم پر بھی ہورہا ہے، لیکن ندیوں کی صاف صفائی یا زمین کی حفاظت ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
واضح ہے، ترقی یافتہ ممالک کی تہذیب اپنانے کے برے نتائج ہندوستان جیسے ملک بھگت رہے ہیں۔ ہم ایک طرف اپنا جی ڈی پی بڑھانے کے لیے ایسی معاشی سرگرمیاں کرتے ہیں، جن سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر اس کو صاف کرنے کی مبینہ مشق کرکے جی ڈی پی بڑھاتے ہیں اور اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں۔ یعنی پہلے بیمار کرو اور پھر علاج میں ہوئے خرچ کو جی ڈی پی میں جوڑ کر اپنی ترقی دکھاؤ۔ انڈین اکنامی سنس انڈیپنڈینس نامی کتاب میں میں نے سوال کیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر، نرس یا اسپتال ایک اچھے معاشرہ کی علامت ہیں یا برے معاشرے کی؟ ان کی ایک مثالی تعداد تو سمجھی جاسکتی ہے، لیکن اگر گلی گلی میں اسپتال کھلنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ بیماریوں کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ اسی کتاب میں ایک جگہ میں نے 2002میں ایمس کے ڈاکٹروں کے ذریعہ کی گئی ریسرچ کا ذکر کیا ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق 1980کی دہائی میں بچوں کو دمہ کی شکایت نہیں ہوتی تھی، لیکن 2002میں دمہ کے کل مریضوں میں بچوں کی حصہ داری تقریباً 15فیصد تھی۔
یہ سب کچھ مارکیٹنگ کی وجہ سے ہے۔ ’مور اِز بیٹر‘ کا تصور دراصل ہماری زندگی میں رچ بس گیا ہے۔ مارکیٹنگ کے ساتھ ہی یہ بھی منسلک ہے کہ صاف تکنیک ترقی یافتہ ممالک میں رہے گی اور خراب(یعنی بیمار کرنے والی) تکنیک ترقی پذیر ممالک میں۔ ایسا کیوں؟ اس کا انکشاف ورلڈ بینک کے چیف اکنامسٹ رہے لارنس ہینری سمرس نے 2002میں کیا تھا۔ انہوں نے ایک پرچہ لکھا تھا جو لیک ہوگیا۔ انہوں نے لکھا تھا، یہ بازار طے کررہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ ترقی پذیر ممالک میں لوگ مریں، کیوں کہ امیر ممالک کے باشندے مارکیٹ کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ ان کی فی شخص آمدنی زیادہ ہے اور وہ نسبتاً لمبی عمر جیتے ہیں۔ ان کی سوچ کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ کبھی دہلی کی جمنا کی طرح گندی رہنے والی ٹیمس ندی اس لیے صاف ہوپائی کیوں کہ وہاں صاف تکنیک کا استعمال ہونے لگا۔ مگر ترقی پذیر ممالک میں ایسا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ان کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ وسائل بھی محدود ہیں۔
واضح ہے، جب تک ہم بازار کو توجہ دیں گے، آلودگی کا حل نہیں نکال پائیں گے۔ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی باتیں سبھی کررہے ہیں، مگر اس میں اس لیے اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ ہم نے اس کو کم کرنے کے لیے غلط راستہ کا انتخاب کیا ہے۔ مثلاً، عالمی درجہ حرارت کو1.5ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے پر تمام لوگ متفق نظر آرہے ہیں، مگر کیا کسی نے یہ سوچا کہ جب ہم 2ڈگری سیلسیس تک بھی نہیں پہنچے ہیں اور ’غیرمتوازن موسم کی انتہائی حالت‘ کو برداشت کرنے کے لیے مجبور ہیں، تب جب اس معیار تک پہنچیں گے، تب کیا ہوگا؟ اسی لیے اچھا ہوگا کہ ابھی جتنا عالمی درجہ حرارت ہے، ہدف اس سے کم رکھا جائے۔
آخر اس کا حل کیا ہو؟ یہاں مہاتماگاندھی کو ہمیں یاد کرنا چاہیے۔ گاندھی جی عدم تشدد کی بات کرتے تھے۔ اس میں صرف دوسرے انسان کے ساتھ نہیں، بلکہ فطرت کے ساتھ بھی تشدد(استحصال، کانکنی وغیرہ) نہ کرنے کی گزارش شامل تھی۔ اسی لیے وہ کہا کرتے تھے کہ فطرت سب کی ضرورت تو پوری کرسکتی ہے، لیکن لالچ کو پورا نہیں کرسکتی۔ بدقسمتی سے، ہم کسی لالچ کی گرفت میں ہیں۔ لوگوں کو بیدار کرکے ہی آلودگی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ گاندھی جی کے مطابق، ہمیں عام طرززندگی اپنانی ہوگی۔ ذاتی مفاد کی جگہ سبھی کے مفادات پر توجہ دینی ہوگی اور معاشرہ کا ہر ممکن خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرسکیں، تبھی بات بنے گی۔ ورنہ، بازار کا یہ ماڈل سب کچھ تہس نہس کردے گا۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS