کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

0

700 سے زائد جانوں کا زیاں اور اربوں روپے کے مالی نقصانات کے بعد کسانوں کی تحریک کے سامنے سر جھکاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے اور کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاج ختم کر کے گھر لوٹ جائیں۔ وزیر اعظم مودی نے سکھوں کے پہلے گرو، گرو نانک دیو جی کے ’پرکاش پرو ‘کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زرعی اصلاحات کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے اور کسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ تینوں زرعی قوانین لائے تھے۔ لیکن کسانوں کے ایک طبقہ نے اس کی مخالفت کی اور یہ ہمارے عزم کی کمی تھی کہ ہم ان کسانوں کو ان قوانین کے فوائد کے بارے میں قائل نہیں کرسکے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کا عمل پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں کیا جائے گاجو کہ 29 نومبر سے شروع ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) اور زیرو بجٹ فارمنگ کی سفارش کرنے کیلئے ایک کثیر جہتی کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیاہے اور کسانوں سے اپیل کی کہ وہ احتجاج چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔
اب تک جو وزیراعظم کسانوں سے بات بھی کرنے کو تیار نہیں تھے، انہوں نے نہ صرف اپنا قدم واپس کھینچ لیا ہے بلکہ قانون کی تنسیخ کا باقاعدہ اعلان کرکے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ تینوں زرعی قوانین ایسے نہیں جن پر کسانوں کو راضی کیا جاسکے۔لیکن وزیراعظم نے یہ فیصلہ کرتے کرتے تقریباً ایک سال لگادیا۔اس ایک سال کے دوران تحریک سے وابستہ 700 سے زیادہ کسانوں کی موت ہوچکی ہے اور سیکڑوں کی تعداد میں ایسے کسان ہیں جن پرمختلف طرح کے مقدمات قائم کیے گئے اور یو اے پی اے جیسا قانون لگاکر انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس ایک سال کے دوران بی جے پی کے لیڈروں اور خود حکومت کے کئی وزرا نے کسانوں کو غدار وطن، ملک دشمن، خالصتانی، دہشت گرد، دشمنوں کا آلہ کار، شرپسند اور پتہ نہیں کیاکیا کہاتھا۔تحریک کوسبو تاژ کرنے کیلئے متوازی کسان یونین بنائے گئے اور حکومت کے حق میں ان سے بیانات بھی دلوائے گئے، کسانوں کو فضول قسم کے مذاکرات میں بھی الجھانے کی کوشش کی گئی۔ ہزار مشکلوں اور دقتوں کے باوجود کسان اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور پوری استقامت کے ساتھ تحریک کو جاری رکھا۔تقریباً ایک سال سے سردی، گرمی اور بارش کے دنوں میں بھی کسا ن اپنی جگہ سے نہیں ہٹے ۔یہ کسانوں کا عزم و حوصلہ ہی تھا جس نے پورے ملک کو ان کے ساتھ کھڑاکردیا اور معاشرے کے ہر طبقہ کی انہیں حمایت حاصل ہوئی۔ ملک کی کئی ریاستوں میں ان قوانین کے خلاف قرار داد پا س کی گئیں اورانہیں کسان دشمن ٹھہرا کر انہیں واپس لینے کا مطالبہ کیاگیا ۔
اب جب کہ وزیراعظم نے تینوں قوانین کی تنسیخ کا اعلان کردیا ہے، کسانوںکو تحریک ختم کرکے اپنے اپنے گھروں کو چلاجاناچاہیے تھا لیکن کسان رہنمائوںکو شاید وزیراعظم کے زبانی اعلان کااعتبار نہیں ہے اور انہوں نے ایوان میں قانون کی عملی تنسیخ کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بظاہر کسانوں کا یہ فیصلہ درست ہی نظرآرہاہے کیوں کہ زرعی قوانین کی واپسی کا فیصلہ ایسا نہیں ہے کہ یہ کسانوں کی محبت میں لیاگیا ہو۔ اس فیصلہ کی کئی سیاسی وجوہات ہیں جن میں پہلا سبب اترپردیش، اتراکھنڈاور پنجاب میں اسمبلی الیکشن ہے، اگریہ قانون واپس نہیں لیے جاتے تو آنے والے انتخابات میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو بھاری نقصان کا خدشہ تھا۔ یہ سیاسی مجبوری ہے جس کی وجہ سے حکومت نے کسانوں کے سامنے سپردگی کی ہے اور کسان بھی اسے اچھی طرح سمجھ رہے ہیں اور وہ کسی بھی حال میں بی جے پی حکومت پر اعتبارکرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے پارلیمنٹ میں پاس کیا ہوا قانون جب تک پارلیمنٹ میں ہی منسوخ نہیں کیاجاتا،‘تحریک ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
بہر حال متنازع زرعی قوانین واپس لیے جانے کا اعلان بھی ایک بڑی کامیابی ہے اور یہ کسانوں کی جیت کے ساتھ ملک کی جمہویت اور آئینی اقدار کی سربلندی کا بھی اظہار ہے۔ کسانوں کی تحریک ہندوستان میں جمہوریت کی طاقت کا بھی امتحان تھی اور اس امتحان میں ملک کی جمہوریت بھی پوری اتری ہے۔ ملک کے کسانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت میںحکومت کے خلاف متحدہ جدوجہد ہی نہ صرف کامیابی کا راستہ ہے بلکہ اس سے جمہوریت بھی مضبوط و توانا ہوتی ہے ۔ اس جدوجہد سے سبق لیتے ہوئے حکومت کو دوسرے متنازع قوانین سی اے اے اورا ین آر سی کو بھی واپس لینے پر غور کرناچاہیے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS