یوکرین جنگ ابھی ختم نہیں ہوگی!

0

ڈاکٹر محمد اجمل

جنگ اگر جاری ہو تویہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ جنگ کب ختم ہوگی، اس لیے یوکرین جنگ کے بارے میں بھی دعوے سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ جنگ کب ختم ہوگی، البتہ یہ بات طے سی نظر آتی ہے کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوگی۔ ایسا کہنے کی کچھ وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ روس کی گیس پر کئی یوروپی ممالک انحصار کرتے ہیں اور یوروپ میں جاڑا شروع ہونے کے بعد وہ اس پوزیشن میں نہیں رہیں گے کہ روس کے خلاف محاذ کھولے رکھیں جبکہ بظاہر امریکہ یہی چاہتا ہے کہ یوروپی ممالک روس کے خلاف محاذ کھولے رکھیں، یوکرین کی جنگ جاری رہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ اب تک یوکرین کی مدد تو کرتا رہا ہے مگر جنگ ختم کرانے کی کوشش اس نے نہیں کی ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ نے 3 ارب ڈالر کی فوجی مدد یوکرین کو دی ہے۔ اس مدد سے تو یہی لگتا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے، یوکرین جنگ جاری رہے، ورنہ وہ یوکرین کو فوجی امداد دینے کے بجائے اور روس کے خلاف پابندی عائد کرنے کے بجائے جنگ ختم کرانے کے لیے جدوجہد کرتا مگر امریکہ ایسا نہیں کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں نہیں کر رہا ہے؟ اس کی بظاہر یہ وجہ لگتی ہے کہ جنگ کے سبب یوروپ میں خوف کاماحول رہے، یوروپی ممالک اس اندیشے میں مبتلا رہیں کہ کہیں روس ان کے خلاف بھی جنگ نہ چھیڑ دے اور اگر روس ایسا کرے گا تو وہ کیا کریں گے، یہ سوچنے پر بھی وہ مجبور ہوں۔ ان کی یہ سوچ ناٹو کی توسیع میں معاون بنے۔ اور یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ جیسے جیسے ناٹو کی توسیع ہوتی جائے گی، امریکہ کی طاقت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ اضافہ چین کے خلاف بھی اس کے کام آئے گا اور دیگر ملکوں کے خلاف بھی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا روس یہ نہیں سمجھ رہا کہ امریکہ یوکرین کو فوجی مدد کیوں دے رہا ہے؟اس کی منشا کیا ہے؟ وہ کیا چاہتا ہے؟ بالکل روس سمجھ رہا ہے۔ اسی لیے روسی سربراہ ولادیمیر پوتن بڑے منظم طریقے سے ایک ایک قدم اٹھا رہے ہیں۔ پوتن نے امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کی پابندیوں کو ضائع کرنے کی کامیاب کوشش کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حکمت عملی کواچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ انہیں مات دینا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ دنیا کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ جنگ طویل عرصے تک چلے گی تو یہ روس کے لیے خسارے کا سودہ ثابت ہوگی، تنگ آکر روس جنگ ختم کرنا چاہے گا۔ پوتن جان رہے ہیں کہ یوکرین جنگ جتنے دنوں تک جاری رہے گی اور جتنی اچھی طرح روس اسی لڑتا رہے گا، یوروپی ملکوں پر اتنا ہی دباؤ رہے گا۔ وہ اس خوف میں مبتلا رہیں گے کہ جنگ کا دائرہ کہیں وسیع نہ ہوجائے، جنگ کہیں تیسری عالمی جنگ کی شکل نہ اختیار کر لے، کیونکہ وہ اس سے پہلے دو عالمی جنگ دیکھ چکے ہیں، یہ جانتے ہیں کہ دونوں عالمی جنگوں کا محور یوروپ ہی کیوں تھا، اس لیے وہ یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یوکرین جنگ زیادہ لمبی کھنچے مگر وہ 6 مہینے سے جاری ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ اور کتنے مہینے تک جاری رہے گی۔
یوکرین جنگ جتنی زیادہ کھنچے گی، وارسا پیکٹ کے وہ ممالک جو ناٹو سے وابستہ ہوگئے تھے، ان پر دباؤ بڑھتا جائے گا، کیونکہ یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ روس کی طاقت سے سامنے یوکرین کہیں ٹکتا نہیں ہے۔ یہ تو یوکرینی صدر زیلنسکی کا جذبہ ہے کہ وہ جمے ہوئے ہیں، اپنے فوجیوں اور لوگوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور ان کے پاس زیادہ متبادل نہیں بچا ہے۔ روس سے مصالحت کی زیادہ گنجائش نہیں ہے اور اگر ہے تو اسی صورت میں ہے کہ یوکرین اپنی شکست قبول کرے اور اپنے تشخص کے لیے مرمٹنے والے یوکرینی یہ نہیں چاہتے کہ ان کا شمار شکست دنیا کی خوردہ اقوام میں ہو، اس لیے وہ لڑ رہے ہیں، وہ لڑنا چاہتے ہیں اس وقت تک جب تک کہ جنگ خود بخود کسی نتیجہ خیز موڑ تک نہ پہنچ جائے۔
روس کے یوکرین جنگ جاری رکھنے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پابندیوں کو بے اثر بنا دینے سے امریکہ کی ساکھ گری ہے۔ یہ میسیج کہیں نہ کہیں گیا ہے کہ طاقتور ملکوں کے خلاف امریکہ زیادہ سے زیادہ پابندیاں ہی عائد کر سکتا ہے، ان کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کی پہلے والی پوزیشن نہیں رہ گئی ہے۔ اس سے یہ بھرم بھی ٹوٹا ہے کہ دنیا یک محوری ہے۔امریکہ کی مرضی سے ہی یہ دنیا چلتی ہے، اس کی مرضی کے خلاف جانے والا کوئی ملک نہیں۔ اگر وہ جانے کی کوشش کرے گا توتباہ کر دیا جائے گا جیسے عراق تباہ کر دیا گیامگر یہ بات بھی طے سی ہے کہ دنیا کے کثیر محوری بننے کا اثر عالمی حالات پر پڑے گا، دنیا بدلے گی، مختلف گروپوں میں بٹے گی جیسے دوسری عالمی جنگ کے بعد بٹ گئی تھی۔ ایک طرف امریکہ کا گروپ تھا، دوسری طرف سوویت یونین کا اور تیسری طرف ناوابستہ تحریک کے ملکوں کا۔ دنیا کے اسی گروپوں میں بٹنے کی وجہ سے جرمنی بٹا تھا اوربرلن میں دیوار کھڑی کی گئی تھی تاکہ یہ اشارہ دیاجا سکے کہ دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔
مطلب یہ کہ دنیا کے کثیر محوری بننے سے جنگوں کے خطرات اور بڑھ جائیں گے اور یہ عالمی امن کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ یوکرین کی جنگ جلد سے جلد ختم ہو۔ اس کے لیے دنیا بھر کے وہ ممالک کوشش کریں جو بھلے ہی زیادہ طاقتور نہیں ہیں مگر ان کی پہچان پرامن اور خودمختار ملکوں کی ہے۔ یوکرین جنگ ختم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور جب تک جنگ جاری رہے گی،لوگوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا، لوگوں کے زخمی ہونے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا مگر یہ سمجھنا ہوگا کہ مرنے والے یا زخمی ہونے والے روسی ہوں یا یوکرینی، وہ ہیں تو انسان۔ انسانوں کی حفاظت کے بغیر انسانوں کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟ اس لیے انسانیت کی حفاظت کے لیے یوکرین جنگ ختم ہونی چاہیے تاکہ مزید ہلاکتیں نہ ہوں اور مستقبل قریب کی دنیا کا امن خدشات کے سائے میں نہ ہو۔ n
(مضمون نگار سینٹر آف عربک اینڈافریقن اسٹڈیز،
جے این یو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS