گھونگٹ و حجاب تمام مذاہب میںخواتین کی عزت و آبروکے تحفظ کی ضمانت

0

نئی دہلی(ایس این بی) : مصطفی آبادعلاقہ کے معروف عالم دین مفتی خلیل احمد راضی قاسمی کا کہنا ہے کہ حجاب کا حکم صرف مذہب اسلام میں ہی نہیں ہے بلکہ تمام ہی مذاہب میں اس کو قدرعزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے او رخواتین کی عزت و آبروکے تحفظ کی ضمانت بھی ہے جس کا بھگوا عناصر مذاق بنانے میں لگے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ آج کی موجودہ دنیا میں حجاب چونکہ مسلمان عورتیں کرتی ہیں اس لیے اس کو ان کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور یہ سب مغرب کی پیروی میں کیا گیا،مغرب نے تعلیمی نظام دیا اس میں عریاں لباسوں کو ڈریس کوڈ بنایا گیاحالانکہ لبا س سے تعلیم کا کوئی تعلق نہیںہے اس کے باوجود مغرب سے متاثر یا مرعوب لوگوں نے اپنا ڈریس کوڈ انہی کے لباس کو بنایا جو ہماری ہندوستانی تہذیب سے بالکل میل نہیں کھاتا۔آل انڈیا مسلم ایکتا کمیٹی کے چیئرمین حاجی اکرام حسن کا کہنا ہے کہ دنیا میں آج مسلمان کے علاوہ کوئی بھی اپنی تہذیب سے اس طرح چپکا ہوا اور محبت کرنے والا نہیں رہا جیسے مسلمان ہے اسی وجہ سے وہ مغرب اور مغرب سے مرعوب لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو عورتوں کے اندر شرم وحیا کو پہلے سے ہی پسند کیا گیا ہے اور اس کو تہذیب اسلامی میں باقی رکھنے کیلئے اس کی پرورش کی گئی ہے،گاؤں دیہات میں مسلم غیر مسلم سب ہی پردہ کو پسند کرتے ہیں جس کو ان کی زبان میں گھونگٹ کہا جاتا ہے،اس کا خیال سب ہی عورتیں کرتی ہیں وہ مسلم ہو یا غیر مسلم لیکن افسوس آج اس کو مسلم شناخت بناکر کے مسلم عورتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔سیلم پور کی جامع مسجد کے امام و خطیب مولانا حسین الدین کا کہنا ہے کہ کون ایسا انسان ہوگا جو یہ چاہے گا کہ اس کی بیوی کو کوئی اجنبی مرد للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے، کون یہ چاہے گا کہ اس کی بیٹی نیم برہنہ لباس میں گھر سے نکلے اور اوباش قسم کے لوگ اس کو اپنی نظروں کا نشانہ بنائیں، کوئی بھی شریف انسان یہ برداشت نہیں کرے گا لیکن پھر بھی لوگ ایک موجِ دریا میں بہے چلے جارہے ہیں۔شاستری پار ک میں واقع ادارہ فلاح دارین کے بانی و مہتمم اور جمعیۃ علما صوبہ دہلی کے صدر مولانا محمد عابد قاسمی کا کہنا ہے کہ وہ عریاں لباس جو ان کی بچیوں کے بدن پر ہے ان کے والدین کی نظریں نہیں چاہتی کہ وہ ان کو اس لباس میں دیکھے لیکن وہ دیکھنے پر مجبور ہے اورکرناٹک سے جو حجاب کی کہانی شروع ہوئی اس کی لپیٹ میں آج پورا ملک ہے، اس ملک کو تو معلوم نہیں کس کی نظر لگی ہے کہ جس ملک کی طاقت کثرت میں وحدت تھی وہ آج اپنے ہی لوگوں کے درمیان انتشار کا شکار ہے،ہندو مسلم کو علیحدہ علیحدہ کردیا گیا، ان کے دل و دماغ کو مذہب کا سہارا لے کر پراگندہ کردیاگیا اور جو بھی کہانی چلانی ہو اس کو مسلمان کی بناکر پیش کردو، ہندو مخالفت میں سامنے آجائے گا۔مدرسہ با ب العلوم جعفر آباد کے مہتمم مولانا محمد دائود امینی کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں ڈریس کوڈ کی ضرورت نہیں اور اگر اس کی ضرورت محسوس بھی کی جاتی ہے تو وہ ایسی ڈریس ہو جس میں شرافت ظاہر ہو،بدن کا پورا چھپاؤ ہو اور جوان بچیوں کو پردہ کی آزادی ہو،آج کی سیکسول دنیا میں لیڈیز اور جینس کالج الگ الگ ہوں اور ان میں پڑھانے والے بھی اسی جنس سے تعلق رکھے جس جنس کا وہ اسکول و کالج ہے، اس سے ہماری بھارتی تہذیب کی حفاظت ہوگی اور جو اس ملک کی حیاء وشرم کی شناخت ہے وہ باقی رہے گی۔ مسلمانوں کو خاص طور پر اپنے اسکول وکالج اس انداز ے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی بچیوں کو محفوظ طریقہ پر اعلی تعلیم دلاسکیں۔ڈاکٹر سید احمد خان کا کہنا ہے کہاس موجودہ تعلیمی دور میں مسلم سماج میں تعلیمی بیداری کے تحت مسلم بچیوں میں تعلیم کے تئیں رغبت میں اضافہ ہوا ہے جن کے حجاب کا معاملہ لاکر مسلم بچیوں کی تعلیم کے خلاف خطرناک سازش لگتی ہے جبکہ حجاب باوقار پردہ ہے جو بری نظروں اور اوباشوں سے تحفظ کی ضمانت ہے جس کے مد نظر حکومت کوحجاب کا استعمال سبھی بلا تفریق مذہب وملت خواتین کیلئے ضروری قرار دینا چاہئے چاہے ڈریس رنگ میں ہو۔حکیم امام الدین ذکائی کا کہنا ہے کہ حجاب، نقاب و گھونگٹ مہذب سماج میں باوقار ہے اور سبھی کے گھروں میں ماں بیٹی اور بہو ہوتی ہیں اور کوئی بھی ان کی بے پردگی نہیں چاہتا اور چاہے شادی بیاہ ہی ہو یا کوئی نئی نویلی دلہن ہو پردہ اس کی عزت و آبرو،بری نظروں اور اوباشوں سے تحفظ ہے جس کے حق میں بلا تفریق مذہب وملت مردو خواتین ملک کے مختلف مقامات پر آٰوازبلند کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS