بہارکا سیاسی کھیل

0

ریاست بہارمیں جو سیاسی کھیلاہوا ہے، اسے نہ تو نیاکہہ سکتے ہیں اورنہ اس پر کسی کو حیرت ہوگی۔ ملک میں یہ بہت پرانا کھیل ہے۔ بہارسے پہلے حال ہی میںمعاملہ مہاراشٹر میں ہوچکاہے۔بہارمیں پھر بھی وزیراعلیٰ کی کرسی بچ گئی، مہاراشٹر میں چلی گئی تھی۔ اقتدارکی آنکھ مچولی ہوتی رہتی ہے، کبھی پارٹیوں کو توڑ کر تو کبھی اتحاد بدل کر۔پورا کھیل اس قدر منصوبہ بند ہوتاہے کہ جب اس کی بھنک دوسروں کولگتی ہے تو سنبھلنے کا موقع تک نہیں ملتا کیونکہ زمین کھسک چکی ہوتی ہے۔ مہاراشٹر میں جو کھیل ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہوا، وہی بہارمیں بی جے پی کے ساتھ ہوا۔ سیاسی کھیل کی اسکرپٹ بہت خاموشی سے پہلے لکھی جاتی ہے لیکن کردار بعد میں سامنے آتے ہیں۔ امسال رمضان میں افطارپارٹیوں میں شرکت کے بہانے نتیش کمار اور تیجسوی یادوکی جو قربت دیکھی گئی،پھر لالو پرساد یادو کی عیادت کے بہانے ان کی رہائش گاہ پر جس طرح نتیش کمار گئے تھے،قیاس آرائیاں اسی وقت شروع ہوگئی تھیں کہ یہ قربت دیر سویر ضرور کوئی گل کھلائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 4-5دن پہلے تک نتیش کمار نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا تھاکہ وہ این ڈی اے چھوڑ کرراشٹریہ جنتادل، کانگریس اورکمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ نئی اننگز کی شروعات کریں گے، جس میں صرف اتحاد بدلے گا، سرکار ان ہی کی رہے گی۔حتیٰ کہ راجیہ سبھا،قانون ساز کونسل، صدر جمہوریہ اورنائب صدر جمہوریہ کے انتخابات میں این ڈی اے کے ساتھ تھے۔حالانکہ اس دوران بی جے پی اور جنتادل متحدہ کے درمیان جو تلخیاں پیدا ہوئیں، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ چاہے اگنی ویر اسکیم کے خلاف پرتشدد احتجاج کے دوران بی جے پی کے لیڈران پر حملوں کے بعدبیان بازی ہو، یا دعوت کے باوجود مرکزی سرکار کی مختلف میٹنگوں یا تقریبا ت میںنتیش کی عدم شرکت۔
سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اورنہ دشمن۔ تب ہی تو 2015میں نتیش کمار نے راشٹریہ جنتادل اوراس کی حلیف پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا اور حکومت ان کے ساتھ بنائی لیکن میعاد پوری ہونے سے پہلے بی جے پی سے ہاتھ ملاکرآرجے ڈی کے ساتھ اتحاد ختم کردیا اور2020کااسمبلی الیکشن بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے لڑا اور سرکاربنائی تو اب آرجے ڈی کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ کوئی ٹوٹے یاجڑے نتیش کمار کی کرسی پر کبھی آنچ نہیں آئی۔کچھ عرصے قبل تک بی جے پی کی بہار اکائی میں نتیش کی جگہ اپنا وزیراعلیٰ بنانے کی مانگ اٹھ رہی تھی۔ اب ان کی بولتی بند ہوگئی۔جنتادل متحدہ کی کم سیٹیں ہونے اور نگراں کی طرح2ڈپٹی وزیراعلیٰ مسلط کرنے کے بعد بی جے پی سمجھ رہی تھی کہ وہ سرکار پر حاوی رہے گی اور دیرسویر اقتدارپر قبضہ کرلے گی، لیکن 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف پارٹی کے لیے نتیش کمار کا یہ قدم کسی جھٹکے سے کم نہیں۔ سبھی جانتے ہیں نتیش کمار جس کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں،زیادہ سیٹیں اسی اتحاد کو ملتی ہیں۔ 2019کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی، جنتادل متحدہ اورایل جے پی کااتحادتھاتو 40سیٹوںمیں سے 17بی جے پی، 16جنتادل متحدہ اور6ایل جے پی کو ملی تھیں۔راشٹریہ جنتادل کا کھاتہ بھی نہیں کھلا تھا۔ یہی حال 2020کے اسمبلی انتخابات کا رہا۔بی جے پی کو 77اور جنتادل متحدہ کو 45سیٹیں ملی تھیں۔لیکن2015کے اسمبلی الیکشن میں جب نتیش کمار نے آرجے ڈی کے ساتھ اتحاد کیا تو آرجے ڈی کو 80اورجنتادل متحدہ کو 71 سیٹیں ملی تھیں جبکہ بی جے پی کی سیٹیں 91سے گھٹ کر 53ہوگئی تھیں۔
جنتادل متحدہ،راشٹریہ جنتادل ، کانگریس اورکمیونسٹ پارٹیوں کا نیااتحاد 2024 کے پارلیمانی اور2025کے اسمبلی انتخابات میںبی جے پی کے سامنے پریشانیاں کھڑی کرسکتاہے کیونکہ اس اتحاد میں سوشل انجینئرنگ پائی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بی جے پی کے ہاتھوں سے شمالی ہندکی ایک اہم ریاست صرف بہارنہیں نکلی بلکہ ایک بہت بڑی بیلٹ بہار، جھارکھنڈ ، اوڈیشہ اورمغربی بنگال میں اقتدارتک اس کی رسائی نہیں رہی، جہاں سے لوک سبھاکی 117اوراسمبلیوں کی 765 سیٹیں ہیں۔ جنہیں کوئی بھی پارٹی نظرانداز نہیں کرسکتی۔پھر جب بی جے پی مرکز کے ساتھ ہرریاست میں اپنی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں وسرگرم ہے تویہ صورت حال یقینااس کے لیے پریشان کن ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS