درست فیصلہ سازی کی ضرورت

0

امر واقعہ ہے کہ کسی بھی کامیابی کے پیچھے درست فیصلوں کا بڑا دخل ہوتاہے جب کوئی تنظیم، سیاسی پارٹی یا ادارہ درست فیصلہ سازی کی قوت سے محروم ہوجاتا ہے تو ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے اورکف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔اس لیے ضروری ہوتاہے کہ اس کے حق میں بہتر فیصلے لیے جائیں۔ایسا لگتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔اس کی بھی قوت فیصلہ سازی اب جواب دینے لگی ہے اور لیڈروںکی عقل پر تالے پڑگئے ہیں۔ ہڑبڑاہٹ میںوہ سب فیصلے لیے جارہے ہیں جو اس کو ناکامی کی کھائی میں دھکیلنے کے لیے کافی ہوسکتے ہیں۔ دراصل پارٹی قیادت کے ذریعہ جس طرح سے سینئر لیڈروں کو میدان عمل کیلئے بطور اسمبلی امیدوارمنتخب کیا جارہا ہے تو اس سے ہر دوسرا شخص ہی حیران وششدر نہیں بلکہ خود لیڈران اور ریاست کے لوگ بھی مبہوت ہیں۔ادھر ریاستی عوام میں اس تعلق سے عجیب وغریب بے چینی ہے جو واضح اشارہ دے رہی ہے کہ فیصلوں میں بڑی خامیاں ہیں۔اگرسینئر لیڈروں میں اسمبلی امیدوار بنائے جانے سے مایوسی ہے تو دوسری جانب ٹکٹ کٹ جانے والے لیڈروں میں بغاوتی اشارے بھی ملنے لگے ہیں اور مقامی لوگوں میں منفی ردعمل سو الگ بات ہے۔اس میں شک نہیں کہ ریاست میں اسمبلی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے لیکن مانا جار ہا ہے کہ نومبر میں کوئی تاریخ مقرر کردی جائے گی۔ایسے میں پارٹی نے نہ صرف حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے بلکہ تنظیمی اورانتظامی سطح پر کئی اہم فیصلوں کے ساتھ امیدواروں کی دو لسٹیں بھی جاری کر دی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دوسری لسٹ میں تین مرکزی وزراء اور 4لوک سبھا کے ممبران کے نام ہیں جبکہ دونوں لسٹوں میں کہیں بھی شیو راج سنگھ چوہان کا نام نہیں ہے۔ اس فیصلے کے بعد اب پہلا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا شیو راج کو اقتدارسے باہر کردینے کا کوئی فیصلہ لے لیا گیا ہے؟اور دوسرا یہ کہ اگرسینئر مرکزی وزرا اور لوک سبھا کے ممبران، اسمبلی الیکشن کے امیدوار بنائے جائیں گے تو کیا ممبران اسمبلی کو پنچایت کے الیکشن لڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے؟ موجودہ صورتحال کا بظاہر لیڈران اظہار نہ کریں، لیکن ان کے دل کی بات چھن چھن کے زبان پر آرہی ہے اور ان کے انہی خدشات اور تحفظات نے پارٹی قیادت کی بے چینی بڑھا دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:
نئی پارلیمنٹ، نئی تہذیب اور جمہوریت کا مستقبل : عبدالماجد نظامی

قابل غور بات ہے کہ دوسری لسٹ میں دیگر ناموں کے ساتھ سینئر لیڈر کیلاش وجے ورگیہ کا نام بھی شامل ہے اور انہیں بھی اسمبلی امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔اس فیصلے سے وہ کافی مایوس اور اداس نظر آرہے ہیں اور اس کا شکوہ بھی کررہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ کہہ کر کہ ’چونکہ 7 سینئرلیڈروں میں کوئی بھی الیکشن نہیں ہارا ہے، اس لیے ان کے ناموں کو شامل کیا گیا ہے‘،اپنی خفت مٹا رہے ہیں۔ جبکہ ان کا صاف طور سے کہنا ہے کہ ’ میرے دل کو سخت تکلیف پہنچی ہے کہ پارٹی نے مجھے امید وار بنا دیا ہے‘۔بہرحال کیلاش وجے ورگیہ پارٹی کے قدآور لیڈر ہیں اور بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری بھی ہیںلیکن پارٹی کے فیصلے کے آگے باد ل ناخواستہ سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں،یہی حال کچھ دوسروں کا بھی ہے۔ادھردوسری جانب سینئر لیڈروں کے علاوہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ باہر کے لوگ(لیڈر) یہاں آکر کیا کریں گے۔ وہیں دوسری جانب میہر،ستنا، سیدھی اور ناگدا اسمبلی سیٹ سے امیدواروں کے ناموں کی تبدیلی کے بعد کچھ مقامی لیڈروں کے بغاوتی سر بھی سامنے آرہے ہیں اور وہ آزاد الیکشن لڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔الغرض،بی جے پی کے حالیہ فیصلوں نے خود اس کی مشکلیں بڑھا دی ہیں لیکن وہ ان کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ وہ ابھی عوام کے دل کی بات کو ٹٹول کر حتمی فیصلہ لے گی کیونکہ ناموں کو بعد میں تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ریاست مدھیہ پردیش میںوزیراعلیٰ شیوراج (ماما) کے مبینہ کاموں کے چرچے ضرور کیے جارہے ہوں لیکن عوام انہیں قبول نہیں کررہی ہے۔ لہٰذا پارٹی قیادت اب دو جانب سے پریشان ہے، ایک تو سینئر لیڈروں کو امیدوار بنانے کا فیصلہ اور دوسرا کانگریس کی نئی حکمت عملی۔ایسے میں بی جے پی کے غلط فیصلے مخالف جماعت کو بے اثر کرنے میں کتنے کار گر ثابت ہوں گے، دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ کیونکہ کانگریس پارٹی نئی حکمت عملی اور کمل ناتھ کے پرانے چہرے کے ساتھ سیاست میں نئی جان پھونکنے میں سرگرداں ہے۔بی جے پی کو اس بات کا بھی خوف کھائے جارہا ہے کہ کانگریس اپنی نئی حکمت عملی کے تحت اسے روکنے کی کوشش ہی نہیں کررہی ہے بلکہ اپنے ’ہارڈ ہندوتوا‘ کے ذریعہ عوام میں PRO HINDU ہونے کا جو پیغام دینے میں مصروف ہے، وہ اس کے لیے نئی قبر گاہ کھود سکتا ہے۔مجموعی طور سے کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی مدھیہ پردیش کا قلعہ محفوظ تو رکھنا چاہتی ہے لیکن اس کی حکمت عملی کی صلاحیت اور قوت فیصلہ جواب دینے لگے ہیں۔جس طرح سے بی جے پی قیادت اپنے سینئر لیڈروں پر فیصلے تھوپ رہی ہے،اس سے کہیںیہ نہیں لگتا کہ وہ ریاست میں دوبارہ عوام کے دلوں کو جیت پائے گی۔ایسے میں ضرور ی ہے کہ وہ ٹھنڈے ذہن سے فیصلے لے جو پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لا نے میں معاون ہوں۔
[email protected]

یہ بھی پڑھیں:
اب کے سیلاب جو آیا تو بھیانک ہوگا

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS