نئی پارلیمنٹ، نئی تہذیب اور جمہوریت کا مستقبل : عبدالماجد نظامی

0
نئی پارلیمنٹ، نئی تہذیب اور جمہوریت کا مستقبل : عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

ہر ملک اپنی تاریخ اور تہذیب کی روشنی میں مستقبل کا اپنا لائحۂ عمل طے کرتا ہے اور اس کا مختصر خاکہ اس کے لیڈران اپنی تقریر اور خطاب کے ذریعہ عوام کو بتاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ کی طویل تاریخ میں اس ملک کی کیسی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔ اگر یہ تقریر پارلیمنٹ کے اندر کی جائے تو اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کو بڑا اہم اور اونچا مقام حاصل ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے فوراً بعد ایسی ہی ایک تقریر مجاہدین آزادی میں نمایاں ترین مقام و مرتبہ رکھنے والے اس ملک کے سب سے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کی تھی۔ ان کی یہ تقریر دنیا کی بہترین تقریروں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ یہ تقریر تاریخ کے اوراق میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اپنی امتیازی شان اور ادبی شاہکار کے طور پر A Tryst with Destinyکے نام سے معروف ہے۔ انگریزی کے اس جملہ کا مطلب ہوتا ہے کہ اپنی تقدیر اور نصیب کے ساتھ خاموشی سے کوئی معاہدہ کرنا۔ اس تقریر کی جہاں بہت سی خوبیاں ہیں، وہیں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی زبان اس قدر دلکش، مفہوم میں ایسی گہرائی اور الفاظ میں ایسا آہنگ ہے کہ جس شخص کو سیاست کے بجائے ادب و انشاء کے موضوع میں ہی صرف دلچسپی ہوگی وہ بھی اس کو اسی ذوق و لذت کے ساتھ پڑھے گا جس وفور شوق کے ساتھ کوئی سیاسی پہلو سے تعلق رکھنے والا انسان پڑھے گا۔ اس کے ابتدائی الفاظ پر آپ بھی ذرا غور کیجیے۔ نہرو جی نے اپنی بات اس طرح سے شروع کی تھی کہ ’’برسوں قبل میں نے اپنی تقدیر سے چپکے چپکے ایک وعدہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:
کیا ہندوستان میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق ختم ہو رہے ہیں؟

آج اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس عہد کے وفا کا کام سر انجام دیا جائے۔ پورے طور پر اور کامل انداز میں نہ سہی لیکن بڑے انداز میں ضرور کیا جائے گا۔ گھڑی کی سوئی جوں ہی نصف شب کی آمد کا اعلان کرے گی، دنیا میٹھی نیند کی آغوش میں سورہی ہوگی لیکن ہندوستان اسی لمحہ بیدار ہوکر آزادی اور زندگی کو گلے لگانے کے لیے قدم بڑھا ئے گا۔ اس تقریر کو اب تک اگر آپ نے پڑھا یا سنا نہیں ہے تو اس کو پڑھیے اور سنیے۔ اگر پڑھ چکے ہیں تو دوبارہ پڑھیے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ آپ جس قدر گہرائی سے اس کو سمجھتے جائیں گے، اسی قدر ملک کی سالمیت اور یہاں جمہوریت و آزادی اور انسانی زندگی پر منڈلاتے خطرات کا اندازہ ہوتا چلا جائے گا۔ خاص طور پر جب آپ نہرو جی کی تقریر کو جنوبی دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کی حالیہ تقریر کو دھیان میں رکھ کر سنیں گے اور پڑھیں گے۔ بدھوڑی نے اپنی تقریر پارلیمنٹ کی بالکل نئی عمارت میں کی تھی جس میں انہوں نے پارلیمنٹ کی اعلیٰ قدروں کا دھیان نہیں رکھا بلکہ اپنی تنظیم کی شاکھاؤں میں ملی تربیت کا اظہار پورے ملک کے سامنے کیا جس پر دنیا بھر کے میڈیا نے اپنا تبصرہ لکھا۔ بدھوڑی نے اسی فکر اور نظریہ کا برملا اظہار کیا جس کے تحت اس ملک کی مسلم اقلیت کو مکمل طور پر حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے اور سیاسی طور پر انہیں ایسا بے وزن بنا دیا گیا ہے کہ قانون سازی کے موقع پر اس کا قطعاً لحاظ تک نہیں رکھا جاتا کہ اقلیتوں کی نمائندگی کے بغیر ایک صحت مند جمہوری نظام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرز فکر کا عملی نمونہ خواتین ریزرویشن قانون بنانے کے دوران بھی سامنے آیا جب مسلم اور او بی سی خواتین کو ریزرویشن سے محروم رکھا گیا۔ پارلیمنٹ کے جس اسپیشل سیشن میں خواتین ریزرویشن بل پر بحث کرنا مقصود تھا، اس میں پوری دنیا نے حیرت سے دیکھا اور سنا کہ ایک منتخب ممبر پارلیمنٹ کنور دانش علی کے ساتھ کیسا سلوک برتا گیا۔ جس قسم کی بھدی زبان اور نازیبا کلمات بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ نے استعمال کیے، ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ تہذیب صرف گلی کوچوں کے اوباشوں اور ہندوتو کے ناخواندہ نوجوانوں کی ہی نہیں بلکہ قانون سازی کے عمل میں شریک ہونے والے اراکین پارلیمان کی بھی ہوگئی ہے۔ دانش علی کے ساتھ کی جانے والی نازیبا حرکت پر گرچہ راج ناتھ سنگھ نے ہلکے انداز میں معافی مانگی تھی لیکن اسی پارلیمنٹ کی عمارت میں بدھوڑی کی تقریر کے دوران بیٹھے بعض بی جے پی لیڈران کی ہنسی صاف بتاتی ہے کہ کنور دانش علی کے ساتھ جاری بدتمیزی سے وہ خوش ہورہے تھے۔ یہ رویہ بتاتا ہے کہ کنور دانش علی کی تذلیل کے ذریعہ ملک کی مسلم اقلیت کو نفسیاتی طور پر دھمکایا جا رہا ہے اور انہیں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جب پارلیمنٹ کے اندر تمہارے منتخب نمائندے اس قدر بے بس ہو سکتے ہیں تو تمہاری حیثیت کیا ہوگی۔ یہ رویہ اس اعتبار سے بھی بہت خطرناک ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو ذلیل کرنے کے بڑے دور رس اور منفی نتائج پیدا ہوسکتے ہیں اور ملک کی امیج کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتہ ہی اسی کالم کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس طرح امریکہ کی وہ تنظیم جو دنیا بھر میں اقلیتوں کی مذہبی آزادی اور ان کے حقوق کی پامالی کے معاملوں کا مطالعہ کرکے امریکی صدر کو مشورہ دیتی ہے، اس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی اقلیتوں کے تئیں منفی پالیسیوں پر کتنے تیکھے تبصرے کیے تھے۔ بدھوڑی نے اپنی تقریر کے ذریعہ یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ کو درست ثابت کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:
مضبوط اپوزیشن جمہوری نظام کیلئے بے حد ضروری

بدھوڑی اور ان کی پارٹی نے دنیا کو یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ اب نہرو جی جیسی فکری بلندی، سیاسی پختگی اور جمہوریت و آزادی کے اعلیٰ اصولوں کے لیے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ اب ایک نیا ہندوستان ابھر رہا ہے جس میں انسانیت کو شرمسار کرنے والے کرداروں کو نمایاں مقام عطا کیا جائے گا اور جمہوریت و آزادی کے وہ سپنے جو نہرو جی نے دیکھے تھے اور انہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے عملی کوشش بھی کی تھی، وہ دور اب ختم ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نہرو کی وراثت کے امین کے طور پر راہل گاندھی نے اس معاملہ میں کوتاہی نہیں کی اور کنور دانش علی کے گھر جاکر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا جس سے ایک امید پیدا ہوتی ہے۔ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی دانش علی کے ساتھ ہمدردی دکھائی ہے اور ان کے ساتھ کی گئی بدتمیزی پر اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے لیکن اصل ذمہ داری پارلیمانی اسپیکر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہے کہ وہ بدھوڑی کے خلاف کارروائی کریں اور ایسے شخص کی رکنیت پارلیمنٹ سے ختم کرواکر یہ پیغام ملک اور دنیا کو پہنچائیں کہ یہاں جمہوریت اور اقلیت دونوں کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ اس کے برعکس عملی طور پر اس شرمناک واقعہ کے بعد بی جے پی نے بدھوڑی کو نوازا ہی ہے اور ان کو راجستھان انتخابات میں اہم ذمہ داری سونپی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عمل سے ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنے میں نہ صرف یہ کہ مدد ملے گی جو کسی بھی اعتبار سے درست نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ تمام جمہوریت پسندوں کے زخموں پر نمک پاشی سے کم نہیں ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS