نفرت کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

آج دنیا نے جہاں بہت سے میدانوں میں ترقی کرلی ہے، وہیں ایک دوسرے پر ہمارا انحصار بھی ناگزیر ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے آ ج عالمی سطح پر ملکوں، قوموں اور معاشروں سے تعلقات استوار کیے جاتے ہیں۔ ایک ملک دوسرے ملک سے معاہدے کرتا ہے۔ اسی طرح ایک معاشرہ دوسرے معاشرے سے اپنی وسعت و ضرورت کے مطابق معاملات ولین دین کرتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ باہم معاشروں، قوموں اور ملکوں کے روابط خوشگوار رہیں۔ آ ج کی سب سے بڑی ضرورت بقائے باہم اور امن و اتحاد ہے۔ امن و اتحاد کی ضرورت معاشرتی سطح سے لے کر عالمی منظر نامے تک ہے۔ نیز یگانگت کے فقدان سے ہمیشہ بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے۔ اب لازمی طور پر معاشروں کو ان چیزوں سے بچانا ہوگا جو کسی بھی طرح سے معاشرے میں بدامنی اور افتراق وانتشار پیدا کرتی ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی سماج میں سکون و اطمینان کی فضا ہموار ہوئی ہے تو اس کا اثر کئی نسلوں تک رہتا ہے، اس لیے بنیادی طور پر معاشروں اور ملکوں کی نہ صرف بقا و سلامتی کے لیے بلکہ تہذیبی قدروں اور تعمیر وترقی کے لیے بھی ان روایات وتعلیمات کو عام کرنا ہوگا جو سماج میں امن و امان اور رواداری کی کیفیت کو پروان چڑھاتی ہیں۔ آ ج ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں بہت تیزی سے منافرت وفاشزم فروغ پارہا ہے۔ کتنے نام نہاد مذہبی لیڈر اور سیاسی نیتا ہیں جو خاص کمیونٹی کے تئیں نفرت پیدا کرکے معاشرے کو مشتعل کرنے کا کام کررہے ہیں۔ کبھی کسی کو اذان سے دقت ہونے لگتی ہے تو کبھی کوئی اور مسئلہ لے کر میدان میں کود پڑتا ہے اور مسلمانوں یا اسلام کو نرم چارہ سمجھ کر اول فول بکنے لگتا ہے۔ جبکہ وہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دراندازی کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک تھا، ہے اور رہے گا۔ اب تو ایسا لگتا ہے یہ لوگ اسلام کو نشانہ بناکر سستی شہرت ہی کے طالب نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے بھی یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ خیر یہ تو دوسری قسم کی بات ہے،لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کسی بھی سماج کی روحانیت اور اس کی خصوصیت کیا ہے؟ آج جو لوگ مسلم کمیونٹی کے خلاف باتیں کرتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ کیا یہ لوگ ہندوستان کی عظیم قدروں اور اس کے روحانی وعرفانی فلسفہ کو زک نہیں پہنچا رہے ہیں؟ دھرم ودین کوئی بھی ہو، مذہب مذہب ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ کوئی دین ودھرم کسی کو بھی برائی یا کسی کمیونٹی کو برا کہنے کی تلقین نہیں کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہر مذہب والے کو اپنے دین سے عقیدت ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ ہم اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی دین یا اس کی مقدس شخصیات کی توہین وحقارت تو نہیں کررہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم اپنے مذہب کے سچے متبع نہیں ہیں۔ مذہبی مصادر کو نشانہ بنانا، مقدس و محترم شخصیات کی حقارت کرنا یا کوئی ایسا عمل کرنا جس سے کسی بھی مذہب والوں کے جذبات مجروح ومخدوش ہوں، یہ عمل بالکل درست نہیں ہے۔ آ ج اس طرح کی جو لوگ حرکتیں کررہے ہیں، ان کے بارے میں صاف کہا جاسکتا ہے کہ وہ مذہبی ہونے کا صرف ڈھونگ کررہے ہیں، ان کا مذہب ودھرم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس دوران ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اسی شخص کو مطعون کریں، جو اشتعال انگیز ی یا کسی بھی مذہب کے احترام کو پامال کرنے کی کوشش کررہا ہے نہ کہ اس کے مذہب کو کیوںکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہر مذہب معاشرے میں امن و سلامتی کا علمبردار ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی دین یہ نہیں سکھاتا ہے کہ فلاں مذہب کو یادین کو ہدف تنقید بناؤ، اس کے متبعین کو سب وشتم کرو۔ چنانچہ یہاں یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ کسی بھی قوم یا مذہب سے نفرت یا تعصب کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔

ہندوستانی معاشرے کی مطلوبہ منزل اور کردار یہی ہے کہ یہاں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے، مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ جب ہندوستانی سماج میں کسی بھی طرح کی غیر یقینی یا دل آ زاری کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے تو اس سے ہندوستان جیسے تکثیری سماج کی عظمت و رفعت اور روحانیت کو قدغن لگتا ہے۔ معاشرے اور قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو نفرت و عداوت اور بیزاری جیسے جرائم سے پاک رہیں۔ انسانی رشتوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے ایک بار پھر سب کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے تبھی جاکر ہم اس نفرت کے ماحول کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

وجہ کوئی بھی ہو، نفرت نفرت ہوتی ہے اور اس کے نتائج ہمیشہ مایوس کن اور متشددانہ ہی ہوتے ہیں۔ نفرت وتعصب میں جہاں وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے، وہیں اس کا اثر اس کی نسلوں پر بھی ہوتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ تعصب و تنگ نظری اور نفرت کسی بھی معاشرے اور سماج میں ہو، اس کا تعلق کسی بھی فرد یا جماعت سے ہو، ہمیشہ ایسا فرد، جماعت، معاشرہ اور قوم پرلطف زندگی سے محروم ہی رہتے ہیں۔ لازمی طور پر معاشروں اور قوموں کی بقا نیز عدل وانصاف کے قیام کے لیے تعصب و تنگ نظری جیسے خطرناک رویہ سے خود کو بھی اور اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کرنا ہوگا۔ آج وطن عزیز میں نفرت وتعصب اور تنگ نظری نے جو صورتحال اختیار کی وہ رفتہ رفتہ بھیانک ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج جو چیزیں سامنے آ رہی ہیں، وہ کسی بھی حد تک قابل اطمینان نہیں ہیں۔ اگر ہم اس تناظر میں اسلام کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہایت شفاف اور منصفانہ ہدایات دی ہیں۔ یہ جرأت صرف اسلام کے اندر ہے جو وہ کہتا ہے کہ کسی بھی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ آ پ انصاف سے دور ہوجائیں۔ گویا اگر کسی سے دشمنی بھی ہے تب بھی عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ جب ہماری سوچ وفکر اور افکار وخیالات اس حد تک روادار ہوںگے تو یقینا ہم ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دے پائیں گے جس کے اندر امن ہوگا، انصاف و قسط، رواداری کا بول بالا ہوگا۔ معاشرتی سطح پر آ ج جو دشواریاں وقوع پذیر ہورہی ہیں ان کو روکنے اور ان پر قابو پانے کے لیے متحدہ طور پر سعی کرنی ہوگی۔ جب معاشرے کی اقدار اور اس کے امتیازات پر آ نچ آ نے لگے تو پھر اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی مطلوبہ منزل اور کردار سے کوسوں دور ہوچکا ہے۔ ہندوستانی معاشرے کی مطلوبہ منزل اور کردار یہی ہے کہ یہاں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے، مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جب ہندوستانی سماج میں کسی بھی طرح کی غیر یقینی یا دل آ زاری کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے تو اس سے ہندوستان جیسے تکثیری سماج کی عظمت و رفعت اور روحانیت کو قد غن لگتا ہے۔ معاشرے اور قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو نفرت و عداوت اور بیزاری جیسے جرائم سے پاک رہیں۔ انسانی رشتوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے ایک بار پھر سب کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے تبھی جاکر ہم اس نفرت کے ماحول کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS