بی جے پی کی انتخابی مہم سے پسندیدہ ایشوز غائب

پانچ ریاستوں کی انتخابی مہم میں پاکستان، بنگلہ دیش اور دہشت گردی جیسے ایشوز کا دور دور تک ذکر نہیں

0

شیکھر گپتا

پانچ سیاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی تشہیر اپنے عروج پر ہے، لیکن اس مرتبہ کیا کچھ غائب ہے؟ یہ تین اہم چیزیں ہیں۔ اندازہ لگانے کے لیے میں آپ کو تھوڑا وقت دیتا ہوں۔
وزیراعظم نریندر مودی اور سبھی اہم وزرا بالخصوص امت شاہ انتخابی مہم میں ایسے مصروف ہیں، جیسے دہلی کی ان کی حکومت کا مستقبل ہی اس پر منحصر ہو۔ ان کی سیاست کے بارے میں ایک چیز ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی جیت چھوٹی نہیں، پھر چاہے پڈوچیری جیسی چھوٹی ریاست کیوں نہ ہو۔ ہر الیکشن ایسے لڑنا ہے، جیسے یہ آخری جنگ ہو۔ بہرحال، ہم تو آپ کو یہ بتارہے تھے کہ اس مرتبہ کے انتخابات میں کون سی تین اہم چیزیں چھوٹ رہی ہیں اور یہ بی جے پی کے معاملہ میں عام بات بالکل نہیں ہے۔ چلئے انکشاف کرہی دیں: مودی-شاہ کی انتخابی مہم سے پاکستان،بنگلہ دیش اور دہشت گردی غائب ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے کی بات کروں تو انتخابی مہم میں کسی غیرملکی ہاتھ کا، قومی سلامتی کے لیے خطرات کا کوئی ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔
یاد کیجیے 2018میں کرناٹک کی انتخابی مہم میں مودی کس طرح کہتے پھرتے تھے کہ ڈوکلام میں ان کی فوج نے چین کا کیسے مقابلہ کیا۔ 2017میں یوپی الیکشن میں پوری مہم اری میں سرجیکل اسٹرائیک کے جنونی جوش پر منحصر تھی۔ 2019میں مغربی بنگال اور آسام میں لوک سبھا الیکشن مہم اس پر مرکوز تھی کہ بنگلہ دیشی درانداز ہماری جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیا جائے گا۔ بعد میں ان ریاستوں میں بی جے پی کی سیاست مضبوط کرنے کے لیے سی اے اے اور این آر سی کو اچھالا جانے لگا۔ لیکن آج انتخابی مہم کے درمیان منگل گرہ (سیارہ مریخ) کی کوئی مخلوق اتر آئے تو اسے یہ یقین تو ہو ہی جائے گا کہ ہندوستان کم سے کم ایک چیلنج سے آزاد ہے، اس کی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے سبھی پڑوسی بھلے لوگ ہیں اور سرحدوں پر امن و سکون ہے۔
اس تبدیلی کو ایسے دیکھ سکتے ہیں کہ بنگلہ دیشیوں سے خطرے کو ایشو بنانے کی جگہ مودی خود حال ہی میں ڈھاکہ میں تھے اور خود کو بنگالیوں کا بندھو بتاکر وہاں سے بھی مغربی بنگال کے لیے انتخابی مہم میں مصروف تھے۔ اس مسئلہ پر پہلے ہم اپنی ادارتی رائے واضح کردیں۔ ہم اس تبدیلی کا خیرمقدم کرتے ہیں، بھلے ہی یہ مستقل نہ ہو۔ یا اس کا کوئی خفیہ مقررہ وقت اگلے سال اترپردیش کے الیکشن تک کے لیے طے کیا گیا ہو۔ جو بھی ہو، ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔

مودی-شاہ کی قیادت میں بی جے پی ’ٹوٹل پالیٹکس‘ میں یقین رکھتی ہے۔ معاشیات سے لے کر معاشرے اور خارجہ پالیسی تک ہر چیز، ہر چال، ایک ہی ہدف کو ذہن میں رکھ کر چلی جائے گی، وہ ہے الیکشن میں جیت۔ میں یہ کہنے کا خطرہ لینا چاہوں گا کہ انہیں یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ گھریلو سیاست اور اسٹرٹیجک قومی مفادات کے خلط ملط سے لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ مودی قومی سلامتی کے ایشو پر شکست خوردہ لیڈر کے طور پر دیکھے جانے کا خطرہ قطعی نہیں لے سکتے۔ یہ اسمارٹ پالیٹکس ہے اور یہ ہندوستان کے لیے بہتر بھی ہے۔

اس تبدیلی کے اشارے ہمیں پہلے ہی مل گئے تھے۔ سی اے اے-این آر سی کی مخالفت کررہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ناراض مسلمانوں کے درمیان مودی کی خیرسگالی کی تقریر کے بعد سے تبدیلی آئی۔ ویسے شروعات انہوں نے سال بھر پہلے کردی تھی، جب رام لیلا میدان کی اپنی تقریر میں انہوں نے این آر سی سے خود کو الگ کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی تھی کہ اس کا مقصد دہشت پھیلانا ہے۔ اس وقت میں نے یہ کہنے کا خطرہ مول لیا تھا کہ مودی کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ گھریلو سیاست میں مسلم پتّا کھیلنے سے ہندوستان کے وسیع سیاسی مفادات کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حالیہ تبدیلی اسی کا منطقی انجام ہے۔ ذہن بدلنے(دل کی جگہ دماغ کو جان بوجھ کر ترجیح دینے) کے پیچھے تین وجوہات ہوسکتی ہیں:
-بنگلہ دیش میں ہندوستان کے ذریعہ خالی چھوڑے گئے مقامات کی تلاش میں چین اور پاکستان جس جوش سے آگے بڑھے، اس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ جب نیپال اور سری لنکا کے ساتھ پہلے سے ہی رشتے کشیدہ تھے، تب ہندوستان مشرق میں بنگالی بولنے والے پاکستانی ہرگز نہیں چاہتا تھا۔
-مشرقی لداخ میں جنگ کا خطرہ تو ٹل گیا مگر چینیوں نے اپنے دعویٰ کا اظہار کردیا۔ ایک تو یہ کہ ہندوستان کے ایک نہیں دو پڑوسی دشمن ہیں۔ اور وہ دوسرے کو 1971کی طرح اپنا دفاع خود کرنے کے لیے چھوڑ نہیں سکتا۔
-اور تیسری بات یہ کہ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی جیسے حساس ایشوز کو گھریلو سیاست میں بھنانے کے کئی نقصان ہیں، کئی مرتبہ تو پانسہ اُلٹ بھی جاتا ہے۔ چینیوں نے لداخ میں ایک کڑوی حقیقت سے واقف کرادیا کہ پاکستان کے اُلٹ، آپ کسی تصادم کو جیت میں بدلنے کے بارے میں پریقین نہیں ہوسکتے۔
اب غلطی کی اصلاح کی جارہی ہے۔ اب آپ پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر عام حالات بحال کررہے ہیں اور چین کے ساتھ ٹکراؤ ختم کررہے ہیں، تب عدم تحفظ کے ایشو کو انتخابی مہم میں اٹھانے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے بھی دنیا کا ماحول بدل چکا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ چین کے معاملہ میں ٹرمپ والی روایت آگے بڑھا رہا ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ راحت اور فائدے کی بات ہے۔
مودی-شاہ کی قیادت میں بی جے پی ’ٹوٹل پالیٹکس‘ میں یقین رکھتی ہے۔ معاشیات سے لے کر معاشرے اور خارجہ پالیسی تک ہر چیز، ہر چال، ایک ہی ہدف کو ذہن میں رکھ کر چلی جائے گی، وہ ہے الیکشن میں جیت۔ میں یہ کہنے کا خطرہ لینا چاہوں گا کہ انہیں یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ گھریلو سیاست اور اسٹرٹیجک قومی مفادات کے خلط ملط سے لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ مودی قومی سلامتی کے ایشو پر شکست خوردہ لیڈر کے طور پر دیکھے جانے کا خطرہ قطعی نہیں لے سکتے۔ یہ اسمارٹ پالیٹکس ہے اور یہ ہندوستان کے لیے بہتر بھی ہے۔
(مضمون نگار ’دی پرنٹ‘ کے ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS