طول پکڑتی کسان تحریک

0

کوئی چند دن جاتا ہے کہ کسانوں کی تحریک کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔اس عرصہ میں تقریباً ایک درجن بار حکومت اور کسانوں کے مابین بات چیت ہوئی لیکن دو نوں فریق کسی ایک نقطہ پر متفق نہیں ہوسکے۔ حکومت کو یہ زعم ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بل پر تینوں زرعی قوانین نافذ کردے گی اور کسانوں کا عزم ہے کہ وہ کسی بھی حال میں زراعت کوسرمایہ داروں کی گود میں نہیں جانے دیں گے۔جبر اور عزم کے مابین جاری اس رسہ کشی میں ملک کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ عالمی سطح پر جہاں ہندوستان کی جمہوریت شرمسار ہورہی ہے، وہیں مرکزی حکومت کے خلاف کسانوں اورعام آدمی میں اشتعال اورا بال روزبروز بڑھ رہاہے۔اب ہر کوئی یہی چاہ رہاہے کہ تعطل ختم ہو اور تحریک سرخ رو ہوکر اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔لیکن بد بختی یہ ہے کہ دونوں ہی فریق اپنے اپنے موقف پر اڑے ہوئے ہیں اور ڈیڈ لاک کی کیفیت بنی ہوئی ہے۔
پارلیمنٹ کے رواں مانسون اجلاس کے ساتھ ہی کسانوں نے بھی اپنی تحریک کی لے تیز کردی ہے اور ’سڑک سے سنسد‘ تک ان کی آواز گونج رہی ہے۔ جب کسی ملک کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہورہاہو تو اس دوران پارلیمنٹ اورا س کے اطراف میں کسی طرح کا بھی مظاہرہ ملکی وقار کے منافی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو دہلی کے جنتر منتر پر کسانوں کا مظاہرہ بھی شروع ہوچکا ہے۔اس صورتحال کی ذمہ داربہرحال مرکزی حکومت ہے، اگر کسانوں کو اعتماد میں لے کر قانون سازی کی گئی ہوتی تو یہ نوبت نہیں آتی اور دنیا بھر میں ہندوستان کو شرمسار نہیں ہونا پڑتا۔
مانسون اجلاس سے قبل ہی کسانوں نے اعلان کردیاتھا کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کریں گے لیکن حکومت کی جانب سے اس کی اجازت نہیں ملی، ہوسکتا ہے کہ دہلی پولیس کو پارلیمنٹ کے باہر کسانوں کے مظاہرہ کی وجہ سے کسی ناگہانی کا خدشہ رہاہو کیوں کہ اسی سال یوم جمہوریہ26جنوری کو کسانوں کے احتجاج کے دوران ہی بدنظمی اور ہنگامہ کی وجہ سے لال قلعہ اور اطراف میں کشیدگی پھیل گئی تھی۔ تاہم کسان مظاہرہ کیلئے اڑے رہے اور بالآخر دہلی پولیس کو پارلیمنٹ اجلاس کے دوران ہی کسانوں کو جنتر منتر پر مظاہرہ کرنے کی اجازت دینی پڑی ہے۔
ایسے میں ایک طرف کسان جہاں جنتر منتر پر اپنی آواز بلند کررہے ہیںتو دوسری جانب پارلیمنٹ کے اندر بھی دونوں ایوانوں میں زرعی قانون اور کسان تحریک کا مسئلہ اٹھ رہاہے۔ اپوزیشن کی جانب سے کسانوں کی تحریک پر سوال کیے جارہے ہیں۔ اگلے سال ہونے والے پنجاب اور یوپی انتخابات کے مدنظر اپوزیشن کسانوں کے مسئلہ پر حکومت کو پوری طرح جکڑنے کی کوشش میں ہے۔ بنگال اسمبلی انتخاب میں دعوے کے برعکس بی جے پی کی ہار کو کسان لیڈر راکیش ٹکیت اپنی جیت بتاتے ہوئے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ یوپی اورپنجاب کے انتخابات میں وہ بنگال والی دوا بی جے پی کو دیں گے۔جنتر منتر پرمظاہرہ کے ساتھ ہی کسانوں نے وہاں اپنی پارلیمنٹ بھی شروع کردی ہے، جو اگلے13اگست تک چلے گی۔اس کے پہلے ہی دن کہاگیا ہے کہ یہ کسان پارلیمنٹ،مرکز کے بنائے گئے تینوں زرعی قوانین کو مسترد کرنے کی تجویز بھیجے گی۔ادھر ایوان میں کیے جارہے سوالوں کے جواب میں حکومت نے زرعی قوانین کو واپس لینے سے یکسر انکار کردیا ہے۔ حکومت کاکہناہے کہ وہ زرعی قوانین کی مختلف شقوں پر کسانوں سے بات چیت ضرور کرسکتی ہے لیکن اسے واپس بہرحال نہیں لیا جائے گا۔ دوسری جانب کسانوں کے تیور سے یہ ظاہر ہے کہ وہ آسانی سے لوٹنے والے نہیں ہیں۔
ان حالات میں بظاہر کسان تحریک کاکوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔ لیکن جاریہ مانسون اجلاس میں اگر کوئی مثبت بات چیت ہو تو امید کی جاسکتی ہے یہ مسئلہ یکسو ہوجائے، لیکن اس کیلئے حکومت کوہی پہل کرنی ہوگی اور ایوان کے اندر اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ہوگا۔کسانو ں کو سبق سکھانے اور ان کی تحریک میں پھوٹ ڈالنے والا رویہ ترک کرتے ہوئے سختی اور طاقت کے بجائے نرمی اختیار کرنی ہوگی۔
ایک سال سے جاری کسانوں کے احتجاج اور مظاہرہ سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ زرعی قوانین کسانوں کے حق میں نہیں ہیں، اگر یہ قوانین کسان دوست ہوتے تو تحریک اتنا طول نہیں کھینچ سکتی تھی۔ لیکن ا ب وقت آگیا ہے کہ حکومت اس طویل ہوتی تحریک کو ختم کرنے کی پہل کرے اور اسی مانسون اجلاس میں تینوں زرعی قوانین پر مکمل بحث ہواور کوشش ہونی چاہیے کہ اس تحریک کو ختم کرنے کیلئے مناسب حکمت عملی بنے کیوں کہ کسان تحریک کا اور زیادہ طویل کھنچنا کسی بھی حال میں ملک کیلئے مناسب نہیں ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS