مدارس کی افادیت اور نئے چیلنجزسے ہم آہنگی کا مسئلہ

0

عبدالماجد نظامی

ہندوستان کے مدارس اسلامیہ نے ماضی میں بہتر سماج کی تشکیل اور فکر اسلامی کی ترویج و ترقی میں جو اہم کردار ادا کیا ہے، وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ مغربی نشأۃثانیہ کے عہد کا جب تک آغاز نہیں ہوا تھا تب تک یہی وہ ادارہ اور نظام تعلیم تھا جس کو اعتبار حاصل تھا۔ زندگی کے تمام مسائل کے حل کا نسخہ اسی کے بوریہ نشیں علماء پیش فرمایا کرتے تھے۔ خود ملک عزیز ہندوستان میں جب مغلیہ عہد کا خاتمہ ہوا اور برطانوی سامراج ملک کے نظام کو بدل کر نیا مغربی نظام نافذ کرنے کا منصوبہ تیار کر رہا تھا،اس وقت بھی فرنگی محل کے علماء کا علم اہمیت کی نظر سے دیکھا گیا اور برطانوی بیورو کریٹس کو تیار کرنے میں ان علماء نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ برطانوی مؤرخ فرانسس رونبسن کے مطابق فرنگی محل کے علماء نے قدیم مغلیہ عہد اور جدید برطانوی سامراجی نظام کے درمیان نقطۂ اتصال کا کام کیا تھا۔ ان علماء کے علوم و افکار اور مغلیہ نظام سے متعلق ان کی گہری واقفیت سے انگریزوں نے خوب استفادہ کیا۔ اس مختصر مضمون میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے لیکن فرانسس روبنسن کی کتاب ’’فرنگی محل کے علماء اور جنوبی ایشیا میں اسلامی ثقافت‘‘(Ulama of Farangi Mahall and Islamic Culture in South Asia) میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مدارس اسلامیہ نے ہر عہد میں ان تمام علوم کے ساتھ اعتناء کیا جو وقت و حالات کے تقاضوں کے تحت ضروری سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ایک دوسری مغربی مصنفہ جن کا نام باربرا مٹکاف ہے، انہوں نے بھی اپنی کتاب ’’برطانوی ہندوستان میں اسلامی احیائ‘‘(Islamic Revival in British India) میں مدارس اسلامیہ بالخصوص دارالعلوم دیوبند کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور اسلامی احیاء میں دارالعلوم دیوبند تحریک اور ندوۃ العلماء پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت نیز اس کے نصاب کی معنویت و عدم معنویت پر ہمیشہ بڑی سنجیدہ گفتگو ملک اور بیرون ملک تمام دانشوران کے درمیان ہوتی رہی ہے۔ خود دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی تحریک جب شروع ہوئی تھی تو اس کا ایک بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ قدیم و جدید کی جو بحث شروع ہوگئی تھی اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، جس کی وجہ سے علماء و دانشوران کے درمیان ایک گہری خلیج واقع ہوگئی تھی، اس کو پاٹا جائے۔ جہاں ایک طرف دارالعلوم دیوبند ایک خاص تاریخی حالات کے پس منظر میں قدیم اسلامی علوم کے اثاثہ کی حفاظت پر اپنی توجہ مرکوز کرنا ضروری سمجھتا تھا، وہیں سر سید احمد کی قیادت میں علی گڑھ تحریک جدید مغربی علوم کو مکمل طور پر اپنانے کی وکالت کر رہی تھی اور یہ بحث بہت سی آپسی ناچاقیوں اور انتشار کا سبب بن رہی تھی، ایسے ماحول میں ملک کے علماء و دانشوران نے ندوۃ العلماء تحریک کا آغاز کیا تاکہ قدیم و جدید کے اس جھگڑے کا ایک قابل عمل حل تلاش کیا جائے۔ تحریک ندوۃ العلماء سے منسلک علماء و دانشوران گہرے مطالعہ و تجزیہ کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ قدیم و جدید دونوں ہی اہم ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ قدیم صالح ہو اور جدید نافع ہو۔ جب تک قدیم صالح اور جدید نافع کا حسین امتزاج مدارس کے نصاب میں برقرار رہے گا، علماء کی اہمیت اور مدارس میں جاری نصاب کی معنویت برقرار رہے گی۔ یہ بحث آج تک جاری ہے اور کوئی آخری فیصلہ نہیں ہو سکا۔
مدارس کے نظام کی اس اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں یہ ایک طرف اسلامی عقیدہ و افکار اور ولی اللہٰی معتدل فکر کی حفاظت اور ترویج کی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کرتا ہے، وہیں دوسری طرف سماج کے ان طبقوں کو علم و عمل سے روشناس کراتا ہے جو طبقے حاشیہ پر دھکیل دیے گئے ہیں۔ مدارس کے نصاب اور اس کے نظام تربیت پر اعتراضات اور تنقیدیں کرنے والوں کو یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ مادی وسائل سے محروم طبقہ کو زندگی کی بلندی تک پہنچانے میں مدارس جو کردار آج بھی نبھا رہے ہیں وہ بے مثال ہے۔ اس اعتبار سے مدارس نہ صرف ملک میں شرح خواندگی کو بہتر بنانے میں قابل قدر کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ ملک میں فقر و غربت کی شرح کو کم کرنے اور مدارس کے طلبا کو باوقار شہری بنانے میں بھی اپنا شاندار تعاون پیش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی شعائر و شریعت کو مسلمانوں کی زندگی میں باقی رکھنے اور اسلام کے ساتھ گہری وابستگی پیدا کرنے میں جو رول مدارس اسلامیہ نبھا رہے ہیں، اس میں ان کا کوئی متبادل آج بھی سامنے نہیں آ سکا ہے۔ اسلامی شریعت و طرز زندگی کے علاوہ عربی زبان و ادب، فن شعر و سخن اور اردو و فارسی مصادر کے ذخیروں کی حفاظت اور وقتاً فوقتاً ان میں قابل قدر اضافوں کا سلسلہ بھی بڑی حد تک مدارس اسلامیہ کے مرہون منت ہے۔
اہمیت و افادیت کے مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ مدارس اسلامیہ پر چند اعتراضات اور تنقیدیں بھی کی جاتی ہیں۔ تنقید کی دو نوعیتیں ہیں۔ ایک نوعیت تو وہ ہے جو جذباتی طبقہ کی جانب سے آتی ہے اور اس میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی اور سرے سے وہ مدارس کی اہمیت و افادیت کے منکر بلکہ اس کے نظام سے بیزار ہے۔ لہٰذا ایسی تنقید زیادہ مفید نہیں ہے کیونکہ بقول مولانا علی میاںؒ ناقد کو ہمدرد ہونا چاہیے۔ اس لیے دوسری نوعیت کی تنقید پر غور کرنا چاہیے۔ وہ تنقید ان دردمندوں کی جانب سے آتی ہے جو مدارس کی اہمیت و افادیت کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس کی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ اس تنقید کی نوعیت یہ ہے کہ مدارس کے نصاب کو زمانہ کے چیلنجز کے مطابق بنایا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ مختلف مضامین سے وابستگی رکھنے والے ماہرین تعلیم کی مدد لی جائے اور انگریزی و ریاضی وغیرہ جیسے مضامین کو اس حد تک شامل نصاب کیا جائے کہ طلبۂ مدارس اعلیٰ تعلیم کے لیے جب یونیورسٹیوں میں جائیں تو صرف خاص مضامین تک ہی خود کو محدود نہ پائیں۔ جو طلبا یونیورسٹیوں کا رخ نہ کرنا چاہیں، ان کی استعداد و قابلیت ایسی بنائی جائے کہ علمی دنیا میں وہ باوزن رہ سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کثیر تعداد میں طلبا کے داخلے پر توجہ کے بجائے اتنی ہی تعداد کو داخل مدرسہ کیا جائے جتنی کہ معیاری فارغین تیار کرنے میں معاون ہو۔ اساتذہ کی تنخواہ کو بہتر کرنے اور ملک کے حالات کے پیش نظر مناسب اور مطلوب صلاحیتوں کے حامل دانشور پیدا کرنے پر توجہ مرکوز ہو۔ ملک کے جدید اداروں کے تجربات سے بھی استفادہ کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ طلبۂ مدارس اجنبیت کے ماحول سے نکلیں اور ایک پراعتماد شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آسکیں۔ اس اجمال کی بہت سی تفصیلیں ہو سکتی ہیں لیکن اس بحث کا اہم پہلو یہ ہے کہ ذمہ داران مدارس اور ملت کے دانشوروں کو سب سے پہلے کھلے ذہن کے ساتھ اس جانب اقدام کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ غلط فہمیوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ بند ہو اور صحیح جہت میں مثبت طور پر قدم بڑھایا جاسکے۔ ورنہ تو بحث کا یہ سلسلہ کسی طرح مفید نہیں ہو پائے گا۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے ڈپٹی گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS