چرچل کے برطانیہ میں ہندنژادوزیراعظم

0

یوروپ کے ساحل کے پا س واقع ایک ننھا ساجزیرہ، جو کسی زمانے میں دنیا کے ایک چوتھائی حصہ پر قابض تھا، اب ایک ہندنژاد شخص اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر مامور ہے۔کساد بازاری، مہنگائی، پائونڈ کی بے قدری ہی نہیں بلکہ تاریخ کے ارزل ترین معاشی زوال کا شکار برطانیہ کی وزارت عظمیٰ وہاں کی 1.7فیصد کی اقلیت ہندو آبادی سے تعلق رکھنے والے رشی سنک کے حصہ میں آئی ہے۔ رشی سنک کا خاندان ایشیا اور افریقہ سے ہوتے ہوئے برطانیہ میںجا بسا تھا۔ ان کے داد ا غیر منقسم ہندوستان اور موجودہ پاکستان کے گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے تھے، 1935میں وہ بسلسلہ روزگار افریقہ کے ملک کینیا کی راجدھانی نیروبی منتقل ہوگئے، پھر1966میں ان کا پورا خاندان برطانیہ جابساتھا۔رشی سنک کی پیدائش اور تعلیم و تربیت بھی برطانیہ میںہی ہوئی۔ سیاست کو انہوں نے اپنے عمل کا میدان چنا۔ کنزوویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے رشی سنک 2015سے ہی برطانیہ کی پارلیمان کے رکن ہیں، اس سے قبل انہوں نے وزیرخزانہ کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے لیکن اب وہ برطانیہ کے وزیراعظم کیا منتخب ہوئے ہیں کہ برصغیر ہند و پاک میں جشن کاسماں چھاگیا ہے۔ کچھ لوگ جہاں اسے برطانوی معاشرہ کا کھلا پن اورکشادہ قلبی قرار دے کر ہندوستان کی نام نہاد قوم پرستی اور ہندو شدت پسندی پر طعنہ زن ہیںتو کچھ کا کہنا ہے کہ شدید ترین معاشی انتشار کے شکار برطانیہ کے سرمایہ دار اور رجعت پسند سیاست دانوں نے رشی سنک کو قربانی کا بکرا بنایا ہے۔
عالمی سیاست بالخصوص یوروپ اور برطانیہ کی سیاست پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ برطانیہ اس وقت جہاں تلاطم خیز سیاسی بحران کا شکار ہے، وہیں معیشت بھی شدید بحران اور عدم استحکام کی زد میں ہے۔حکمراں کنزرویٹو پارٹی میںبھی کھینچ تان زوروں پر ہے۔ حالات کی سنگینی اور بحران کی شدت کا اندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ خود کو مارگریٹ تھیچر کا جانشین سمجھنے والی محترمہ لزٹرس کو صرف 45دنوں میںہی وزارت عظمی کی کرسی چھوڑنی پڑی اور انہوں نے برطانوی جمہوریت کی300سالہ تاریخ میںسب سے قلیل مدت وزیراعظم کے بطور اپنا نام درج کرایا۔اس سے پہلے بورس جانسن بھی صرف تین سال تک ہی اس عہدہ کا بار سنبھال پائے اور پارٹی کے اندرونی انتشار کی وجہ سے انہیں 6ستمبر2022کو مستعفی ہوجانا پڑاتھا۔
اب برطانیہ کی ڈگمگاتی معیشت کو سنبھالنے کا بار42سالہ رشی سنک کے کاندھوں پر آن پڑا ہے۔اس وقت برطانیہ میں طبقاتی جدوجہد اپنے نقطہ عروج پرہے۔ مختلف صنعتوں سے تعلق رکھنے والے مزدور اور محنت کش عوام مسلسل متحرک ہیں۔ افراط زر نے عام برطانوی کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔ برطانیہ میں ستمبر میں مہنگائی کی شرح 10 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی اور اس کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا تھا۔گوشت، روٹی، دودھ اور انڈوں کی قیمتوں میں بھی بھاری بھرکم اضافہ ہوا ہے، ملک بھر کے اسکولوں میں بچوں کو کھانا کھلانا مشکل ہورہاہے۔برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی حالت خراب تر ہوگئی ہے اوراسپتال ملک کی صورتحال سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں۔بڑھتی مہنگائی اور افراط زر سے پریشان محنت کش طبقہ اور حکومت کے مابین خلیج روز بروزبڑھتی جارہی ہے۔ ریل، بندرگاہ اور بعض دیگر محکموں سے تعلق رکھنے والے ملازمین نے ہڑتال کردی ہے۔
رشی سنک کی پیش رو محترمہ لز ٹرس کی پالیسیاں بھی برطانیہ کو عمومی معاشی انہدام کی جانب لے جارہی تھیں۔لزٹرس نے معاشی نمو کو تیز کرنے کیلئے ٹیکسوں میں کمی کے ساتھ ہی توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی ادائیگی سرکاری خزانے سے کرنے کا اعلان کیا تھالیکن اس کا اثر الٹاپڑا،قومی قرضے میں بے تحاشہ اضافہ ہوا،منڈیوں میں طلب و رسد کا توازن بگڑگیا، اب اس کی وجہ سے مستقبل قریب میں بے روزگاری اور افراط زر میںمزید اضافہ کابھی سنگین خدشہ منڈلا رہاہے۔ سال 2023 کے دوران بے روزگاری اور افراط زر تمام سال کی بلند ترین سطح پر رہنے کی پیش گوئی بھی کی جاچکی ہے۔
رشی سنک، لز ٹرس کی مالیاتی پالیسیوں سے کبھی متفق نہیں رہے۔ سیاسی مباحث کے دوران انہوں نے اس پر کھل کر تنقید کی، اب جب کہ زمام اقتدار ان کے ہاتھوںمیں ہے، اس بات کا امکان ہے کہ وہ اپنے پیش رو کی پالیسیوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے نئے فیصلے کریں گے۔ یہ فیصلے برطانوی سرمایہ داروں اوررجعت پسند سیاست دانوں کیلئے امتحان کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ان حالات میں رشی سنک کیلئے برطانیہ کی وزارت عظمیٰ ایک کانٹوں بھرا تاج ہے اگر وہ ان کانٹوں کی چبھن تادیر برداشت کرگئے تو امید کی جاسکتی ہے کہ برطانیہ سیاسی و معاشی بحران سے نکل کر بحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ اگر یہ نہ بھی ہوا تب بھی چرچل جیسے رجعت پسند سیاست داں کے برطانیہ میں ہند نژاد رشی سنک کا وزیراعظم بن جانا اپنے آپ میں ایک غیر معمولی واقعہ ضرور ہے اوراس واقعہ میں ہندوستان کیلئے بھی کئی سبق پوشیدہ ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS