بھیانک بدانتظامی اور لاپروائی

0

ایک طرف کور ونا کی دوسری لہر پورے ہندوستان میں قیامت ڈھارہی ہے اور تودوسری جانب ناقص انتظامات اور صحت کے شعبہ میں انتہا درجہ کی بد انتظامی نے اسپتالوں کو مقتل میں تبدیل کردیا ہے۔ آکسیجن اور لازمی ادوایات کی کمی کی وجہ سے اموات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہاہے، اسی بیچ مہاراشٹرکے ناسک میں بدانتظامی اور لاپروائی کی وجہ سے دو درجن سے زیادہ اموات ہوگئی ہیں۔ آکسیجن لیک کرنے کی وجہ سے ہونے والے اس بھیانک حادثہ کی خبر پورے ہندوستان پربجلی بن کر گری ہے۔ناسک کے ذاکر حسین اسپتال میں اس وقت 65مریض وینٹی لیٹر پر تھے اورا نہیں آکسیجن دی جارہی تھی کہ اچانک آکسیجن ٹینک کا کاک خراب ہوگیا اور گیس کا رسائو ہونے لگا جس کی وجہ سے آکسیجن کی سپلائی کا پریشرکم ہوتا گیا جس سے وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے 22افردا نے دم توڑ دیا اور باقی 35مریضوں کی حالت انتہائی سنگین ہے۔ہر چند کہ ایک دیڑھ گھنٹے کے بعد گیس کا رسائو رک گیا اور مشین میں بگاڑ کو درست کردیاگیا اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے اس حادثہ میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان کی مالی مدد کا بھی اعلان کیا ہے اور معاملہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم بھی دیا ہے لیکن کیا یہ مسئلہ کا حل ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اتنا سنگین حادثہ ہوا ہی کیوں؟ کیا پہلے سے اسپتال میں گیس کی سپلائی لائن کی نگرانی اور دیکھ ریکھ کرنے والا عملہ موجود نہیں تھا؟ طبی اصولوں کے مطابق کسی بھی اسپتال کی گیس سپلائی لائن پر24گھنٹوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ متبادل انتظامات بھی رکھا جاتا ہے لیکن ذاکر حسین اسپتال کے معاملہ میں نہ تو نگراں عملہ اپنی ذمہ داری نبھا سکا اور نہ ہی کوئی متبادل انتظام پہلے سے رکھاگیاتھا۔اس اسپتال میں جس کمپنی کو آکسیجن کی سپلائی کا ٹھیکہ دیاگیاتھا اس کی جانب سے کوئی ٹیکنیکل سپورٹ اسپتال کو نہیں دی گئی تھی اور اسپتال کے ڈاکٹرگیس سپلائی کی مسلسل بحالی کے ہنر سے نابلد تھے اور یہ ان کی ذمہ داری بھی نہیں تھی بلکہ باقاعدہ اس کیلئے ٹیکنیکل ٹیم ہونی چاہیے تھی۔ ذاکرحسین اسپتال کے معاملے میں یہ ٹیکنیکل ٹیم تھی ہی نہیں جس کی وجہ سے یہ بھیانک حادثہ ملک کو سوگوارکرگیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کی نگاہیں ہندوستان کے اسپتالوں اور وہاں دستیاب سہولتوں پر لگی ہوئی ہیں، کسی اسپتال میں بدانتظامی اور لاپروائی کی وجہ سے آکسیجن ٹینک کا لیک کرجانا کسی بھی طور پر قابل معافی نہیں ہوسکتا ہے۔
مہاراشٹرہی نہیں بلکہ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ کورونا انسانی بستیوں کو تخت و تاراج کررہا ہے۔ لیکن صحت انتظامات کو بہتر کرنے کی سمت حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ بہت سی جگہوں پر آکسیجن کی بھاری کمی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سارے مریض اپنی جانیں گنواں رہے ہیں۔ یہی صورتحال لازمی دوائوں اورا سپتال میں دستیاب بستروں کی بھی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں فی دس ہزار انسانوں کیلئے اسپتالوں میں صرف8.5بستر ہی ہیں اور یہی حال ڈاکٹروں کا بھی ہے جن کا تناسب فی دس ہزار کی آباد ی پر صرف 8ہے۔ ان انتظامات کو درست کرنے کے بجائے حکومت نے پہلی لہر کے وقت ’تبلیغی جماعت‘ کی شکل میں ایک بلی کا بکرا ڈھونڈ لیا تھا اور پورا ملک ان کے پیچھے لگ گیا جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس عرصہ میں اسپتالوں اور دوسری میڈیکل سہولیات کو بڑھایا جاتا اور بہتر بنایاجاتا۔ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے کورونا کی موجودہ لہرکے خطر ناک ہونے کی قیاس آرائی پہلے ہی کردی تھی اور ساری دنیا کو متنبہ بھی کیا تھا، جن ملکوں نے کورونا کی اس لہر سے بچائو کی تیاری کی انہوں نے خود کو اس کے اثر سے محفوظ رکھا لیکن اس معاملے میں ہندوستان کی بدبختی آڑے آگئی۔ سیاسی قیادت بھی لوگوں کو خواب دکھاتی رہی جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ملک بھر میں نہ صرف آکسیجن کی شدید قلت ہوگئی بلکہ ریمیڈیسیور نام کے انجکشن کی کالابازاری نے بھی ہزاروں افراد کی جان لے لی۔ بڑے طمطراق کے ساتھ آیوشمان بھارت نام کی ہیلتھ انشورنس اسکیم متعارف کرائی گئی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی 80فیصدآبادی آج بھی ہیلتھ انشورنس کے دائرہ سے باہر ہے۔اس بحران اور سنگین صورتحال میں لفاظی اور بلند بانگ دعوئوں میں ہمالیہ تک کو شرمند ہ کردینے والی قیادت کا شرم ناک کردار کھل کر سامنے آگیا۔ ایک طرف ٹیکہ اتسو کا ڈنکا بجایا گیا تو دوسری طرف کورونا پھیلانے کیلئے مغربی بنگا ل میں روزانہ درجنوں سیاسی جلسے اور روڈشو پر اصرار بھی رہا۔ ٹیکہ اتسو کی حقیقت یہ ہے کہ اب تک صرف 13کروڑ ہندوستانیوں کو ہی یہ نصیب ہوسکا ہے۔یعنی ہر25میں سے صرف ایک شخص کو اب تک ٹیکہ لگایاجاسکا ہے۔ جو امریکہ اور چین کے بعد سب سے زیادہ ہونے کے باوجود فی کس شمار کی بنیاد پر انتہائی قلیل ہے۔برطانیہ میںہر دو سراشخص ٹیکہ لگا چکا ہے جب کہ تین امریکی میں سے ایک کو ٹیکہ لگایا جاچکا ہے۔
ابتلا اورآزمائش کی اس گھڑی میں لفظوں کے قطب مینار تعمیر کرنے کے بجائے حکومت اگر صحت انتظامات درست کرنے پر توجہ دے تو ہوسکتا ہے انسانی جانوں کے زیاں پرکچھ حد تک قابو پایا جاسکے۔اس کے ساتھ ہی لاپروائی برتنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی ضروری ہے تاکہ ناسک کے ذاکر حسین اسپتال کا واقعہ دوسری جگہوں پر نہ دہرایاجاسکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS