اردگان کے بیان پرمغرب کے ایوان اقتدار میں ارتعاش

0
aljazeera.com

شاہنواز احمد صدیقی

ترکیہ کے صدرطیب اردگان اور اہل مغرب کے درمیان کی کھینچ تان نئی نہیںہے۔ مغربی ممالک بطور خاص فرانس، برطانیہ اور امریکہ ترکیہ میں اردگان کی پارٹی اور ملک میں اسلامی افکار کے فروغ کو لے کر کافی شش وپنج میں مبتلا رہے ہیں۔ دونوں کی سوچ میں کافی فرق ہے جو تیزی سے بدلتے عالمی سیاسی منظرنامہ میں بھی ظاہراوراثر انداز ہو رہا ہے۔ یوکرین کی جنگ نے تو اس کو اختلاف کو بالکل ہی طشت ازبام کردیاہے۔ کئی یوروپی یونین کے ملکوں کی ناٹومیں شمولیت کے معاملہ پربھی یہ اختلافات اور ترکیہ کے تئیں یوروپی ممالک کے رویہ پر اختلافات نے بین الاقوامی سطح پر سرخیاں بٹوریں۔ اس وقت بھی ترکیہ نے شکایت کی کہ ترکیہ کو یوروپی یونین میں شامل کرنے پر یعنی مکمل ممبرملک کا رتبہ دینے پرتعصب کااظہار کیاجارہاہے۔ ترکیہ کی اس شکایت پر امریکہ اور اس کے دیگر حواریوں کا استدلال تھا کہ ترکیہ کی یوروپی یونین میں مکمل ممبرشپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، دونوں اکائیاں بالکل مختلف ہیں۔ امریکہ کے دورے کے موقع پر ایک بار پھر طیب اردگان کا کرب چھلک اٹھا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر طیب اردگان نے ایک میڈیا ہاؤس سے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ جتنا مغرب قابل بھروسہ ہے، اتنا ہی روس بھی قابل اعتماد ہے۔ ان کا ملک 50سال سے یوروپین یونین کی مکمل رکنیت ملنے کاانتظار کر رہا ہے مگر اب تک اس کے رتبہ کو لے کر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور ترکیہ اور یوروپین یونین کے درمیان مستقل اور مکمل ممبرشپ کو لے کر مذاکرات گزشتہ 24سال سے یوںہی سست روی کے ساتھ بلانتیجہ چل رہے ہیں۔انھوں نے واضح کیا ہے کہ یہ انتظار تاحیات جاری نہیں رہ سکتا اور وہ اپنی کوششوں کو موقوف کرسکتے ہیں۔
پچھلے دنوں یوروپین یونین نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہاگیاتھا کہ ممبرشپ کے مذاکرات اور عمل کو اس وقت تک آگے نہیں بڑھایاجاسکتا جب تک کہ ترکیہ اپنے رویہ میں بہت بڑی تبدیلیاں اختیار نہیں کرتا ہے۔ اس سے تاثرپیداہوتاہے کہ اس کی ممبرشپ کو لے کر مذاکرات حقیقتاً ختم ہوگئے ہیں اور اس کی ممبرشپ کی عرضی زیرغور ہی نہیں ہے۔
طیب اردگان گزشتہ20سال سے برسراقتدار میں ہیں۔ اس سال مئی میں ہونے والے الیکشن میں وہ ایک اور میقات کے لیے چن لیے گئے تھے۔ ان انتخابات کے بعد یونین نے کئی اور شکایتیں وشرائط سامنے رکھ دی ہیں۔ ان ممالک کا کہناہے کہ اس الیکشن میں کافی بے اعتدالیاں ہوئی ہیں، انسانی حقوق کی کئی محاذوں پر خلاف ورزی کا ارتکاب کیا گیاہے۔ یوکرین جنگ کے بعد روس کے ساتھ تعلقات پربھی یونین کے شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ روس اور ترکیہ کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات حسب دستور برقرارہیں اوریہ رشتہ مغرب کو ایک آنکھ نہیں بھاتاہے۔ یورپین یونین اور ترکیہ صرف محدود طریقے سے مربوط ہیں کچھ تجارتی امور پر اس کو مراعات ملی ہوئی ہیں۔ 1995میں دونوں فریقوں میں تعلقات کی تجدید کو لے کر مذاکرات چل رہے ہیں۔ 2005میں مکمل ممبرشپ پربات شروع ہوئی تھی مگر 2010کے بعد سے ان مذکرات میں تعطل قائم ہے اور ایسا لگ رہاہے کہ دونوں فریقوں کے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
یوروپی سیاست پرگہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہناہے کہ یوروپین پارلیمنٹ نے ترکیہ کے اندر کے سیاسی حالات پر کئی مرتبہ نکتہ چینی کی ہے اور اندرونی حالات کو منفی قرار دیا تھا۔ اگرچہ یوروپی پارلیمنٹ کا یونین کی توسیع میں کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے۔ اس کے باوجود یوروپی پارلیمنٹ نے اس کی ممبر شپ کے تعلق سے جاری مذاکرات ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔ اگرچہ اس سفارش پرعمل آوری ضروری نہیں ہے، اس کے باوجود کئی ممالک نے ترکیہ سے ممبرشپ کے علاوہ کوئی متبادل طریقہ اختیار کرنے کی بات کہی ہے۔ آسٹریا، فرانس، جرمنی نے اصرار کیاہے کہ وہ یونین کے ساتھ تعلقات کو گرم جوش والے بنائے صرف ممبرشپ ملنے پر تکیہ نہ کرے۔ اس سے بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ ترکیہ کو ممبر شپ ملنے کے امکانات بالکل ہی نہیں ہیں۔ یونین چاہتی ہے کہ مکمل ممبرشپ کے بغیر ترکیہ سے تعلقات یوں ہی چلتے رہیں۔ مکمل ممبرشپ کے لیے درکار ووٹ اس کے پاس نہیں ہیں۔ اس کے باوجود کئی ممالک جیسے پولینڈ، اسپین، ہینگری، یونان اور فن لینڈ وغیرہ ترکیہ کی حمایت کرنے میں اور اس مقصد کو پانے کے لیے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک بڑے طبقہ کا خیال ہے کہ ترکیہ کو اس طرح سے نظرانداز کرنا اس قدر بڑی معیشت اورفوجی طاقت کو یوروپین یونین سے باہر کی طرف دھکیلنا ہے۔ اس سے یوروپی یونین اور ترکیہ کی شراکت داری کاعمل رکنے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے۔ ترکیہ کے الگ تھلگ پڑجانے سے وہاں داخلی سیاست میں متوقع اصلاحات اور انسانی حقوق کے چارٹر پرعمل آوری کاراستہ بند ہوجارہاہے۔
ترکیہ کے ساتھ بہت سے اقتصادی اور سیکورٹی کے ایشوز جڑے ہوئے ہیں۔ ترکیہ کو پورے خطے میں اپنی اہمیت کا اندازہ ہے۔ وہ ایک بڑی معیشت ہے، عالمی سیاسی منظرنامہ میں اس کی اہمیت برقرار ہے۔ یوکرین تنازع میںروس کے ساتھ مصالحت کرکے اس نے اپنی سفارتی مشاقی اور اثر و رسوخ کاثبوت فراہم کرادیاہے۔اگرچہ اب کئی ممالک اس معاہدے کی تجدید نہ کرپانے میں ناکامی پراس کی نکتہ چینی کررہے ہیں۔ ناٹو کی دوسری سب سے بڑی فوجی طاقت ہونے کی وجہ سے طیب اردگان کو اپنی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ سویڈین اور فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت پر اس کے اعتراض کو اہمیت دی گئی اورامریکہ کی مداخلت پر اس نے سویڈن کی ممبرشپ پرلگے اعتراضات کو واپس لے تو لیا ہے مگر اپنی پارلیمنٹ کی منظوری کاانتظار ہے۔ امریکہ اور ترکیہ کے درمیان اس اعتراض کے واپس لینے کے بعد مراسم میں کچھ بہتری آئی ہے اور امریکہ اس کو ایف 16جہاز دینے کے لیے کافی حد تک راضی ہوگیا۔امریکہ اور ترکیہ کے درمیان ایف16جہازوں پرکافی کھینچاتانی مچی ہوئی تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طیب اردگان کی یہ وارننگ کہ وہ یونین کے ساتھ تعلقات ختم کرنے پرغور کررہے ہیں، سفارتی حلقوں میں کتنا ارتعاش پیداکرتاہے۔ n
[email protected]

کیا کہاتھا طیب اردگان نے

یوروپین یونین ترکیہ سے تعلقات منقطع کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہم حالات پرغورکررہے ہیںاور اگر ضروری ہوا تو یوروپین یونین سے علیحدگی اختیار کرلیں گے۔ جتنا مغربی قابل اعتماد ہے، روس بھی اتنا ہی بھروسے کے قابل ہے۔ پچاس سال سے ہم یوروپین یونین کے دروازے پردستک دے رہے ہیں۔
آج کے دور میں ہم ترکیہ اور یوروپین یونین کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے موقع کی تلاش میں ہیں۔ تعلقات میں گرم جوشی کی اہمیت پراصرار برقرار رکھاجائے گا۔‘

ترکیہ پر یوروپین پارلیمنٹ کی قرارداد

ترکیہ میں سیکورٹی فورسیز کی انسانی اورشہریوں کے حقوق پر نگرانی کو مضبوط نہیں بنایاجاسکا۔ پولیس اور انٹلیجنس پروسیس کی ذمہ داری بہت محدود کردیاگیاہے۔ مقننہ کے ذریعہ سیکورٹی فورسیز پر نگرانی کے نظام کومضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انتظامی اصلاحات کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پالیسی سازی میں بہتری اورمقننہ کی شراکت کویقینی بناناضروری ہے۔ انسانی حقوق کے معاملہ میں حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں اور ایمرجنسی کے دوران جوقواعد نافذ کیے گئے تھے ،وہ ابھی بھی برقرار ہیں، اظہارخیال کی آزادی پرقدغن برقرار ہے۔ انسانی حقوق کی 2021کی قرارداد کو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتی اور انتظامی اقدام ——اظہاخیال پرروک لگانے والے ہیں۔
(یوروپین یونین کمیشن کی رپورٹ سے ماخوذ)

یوروپین یونین :کیا ہیں ترکیہ سے شکایات

خارجہ پالیسی کے امور میں ترکیہ پر نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ یونین اس بات سے ناراض ہے کہ سویڈن کی ناٹو کی ممبرشپ کی منظوری میں تامل کرتارہا۔ بحرروم خاص طور پر مشرقی بحرروم،شام، سائبرس، لیبیا،یونان پر ترکیہ کے رول پر یونین کو سخت اعتراضات ہیں۔ بحرروم کے توانائی کے ذخائر پر ترکیہ اور یونین کی حکمت عملی میں کافی فرق اور تضادات ہیں۔ اس خطہ میں ترکیہ اپنے مفادات کے مطابق کام کررہاہے جبکہ یونان، اسرائیل ،قبرص، اٹلی وغیرہ کا الگ نقطہ نظر ہے۔یہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتے سے بندھے ہوئے ہیں۔بنیادی طورپر مغربی ممالک طیب اردگان پر یوروپی ممالک سے متصادم پالیسی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

کیا ہے اصل فسا د کی جڑ؟

طیب اردگان اسلام پسندوں کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور اصطلاحاً ان کی پارٹی مذہبی بنیاد پرست جماعت کے زمرے میں آتی ہے۔ مگر 2007سے لے کر اب تک ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ 2007میں ان کی پارٹی کو46.6فیصد 2011 میں 49.9اور 2015میںذرا کم41فیصد ووٹ ملے تھے۔ اتار چڑھاؤ کے باوجود ترکیہ میں وہ صورت حال پیش نہیں آئی جو 2000سے پہلے تھی۔ اسی وجہ سے ناٹو اور یوروپین یونین کے رویہ میں کوئی لچک ظاہر نہیں ہوتی ہے۔ لگاتار 25سال سے یوروپی یونین سے مکمل ممبرشپ کے مذاکرات ہورہے ہیں اور اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے اور کسی نہ کسی بہانے سے ان کے خلاف مغرب میں ایک خاص رویہ کارفرما رہا ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS