فرانس کے خلاف نئے اتحاد کی آہٹ

0

پچھلے دنوں نائیجیرمیں فوجی تختہ پلٹ کے بعد فرانس کا ردعمل انتہائی جارحانہ اور غیرمتوقع تھانہیں۔ فرانس کی جھنجھلاہٹ بالکل عیاں تھی۔ وہ اس مایوسی کو چھپا نہیں سکا اور اسی جھنجھلاہٹ میں اس نے اعلان کردیا ہے کہ ساحل خطے کے ملک نائیجرمیں حال ہی میں تیسری بغاوت کے خلاف دیگر پڑوسی ملکوں کوورغلانے کی کوشش کرتادکھائی دیا۔ نائیجیر چند ماہ کی قلیل مدت میں ساحل کا یہ تیسرا ملک تھا جو بغاوتوں کے ذریعہ فرانس کے اثر اور دباؤ سے باہر نکل آنے میں کامیاب رہاہے۔ پھر اور دیگر مغربی ممالک اس کو غیرجمہوری تبدیلی اقتدار قرار دے کر نظرانداز کررہے ہیں اور کئی پڑوسی ملکوں پر دباؤ ڈال کر نائیجیرکے خلاف فوجی مداخلت کی بات ہورہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مالے، برکینافاسو اور نائیجیرنے اپنی سامراجی طاقت اور پڑوسی ملکوں خاص طورپر پندرہ ملکوں کے اقتصادی گروپ ’ایکواس ‘(ECOWAS) نے سفارتی دباؤ کے ناکام ہونے کی صورت میں حملہ کرنے کی وارننگ تک دے ڈالی اور فرانس نے اگرچہ اس کارروائی میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے مگر اس نے ان ملکوں کو ہر ممکن مدد پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ اب ان تینوں ممالک مالے، برکینافاسو اور نائیجیرنے ایک فوجی اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بابت ایک قرارداد اور سمجھوتے پران تینوں ممالک نے دستخط کردیے ہیں۔ فی الحال تین ممالک پرمشتمل اس چارٹر کو اتحادبرائے ساحل ممالک (Alliance of Sahel States)کہاگیا ہے۔ اس قرارداد کی عبارت بہت ہی واضح اورخارجی فوجی طاقتوں اور ان طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونہ نہ بننے والے ممالک کا اقتصادی اتحادہوگا۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ہماری ترجیح تینوں ملکوں کے خلاف دہشت گردی کا مقابلہ کرناہوگا۔‘
ان تینوں ملکوںنے فرانس کی سرپرستی میں بنائے گئے اقتصادی وسیاسی اتحاد سے بالکل علیحدہ اورمنفرد حکمت عملی اختیارکی ہے جو ساحل خطے میں بنایاگیاتھا اور اس اتحادمیں پانچ ممالک تھے۔ مالے، برکینافاسو اور نائیجر کے علاوہ دو اور ممالک چاڈ اور موریطانیہ بھی جی5ممالک کاحصہ تھے۔ جی 5کے قیام کا مقصد القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کی دہشت گردی کا مقابلہ کرناتھا۔ فرانس کی مدد سے یہ گروپ 2017میں معرض وجود میں آیاتھا۔ ان تینوں ملکوں میں 2020کے سمجھوتے سے الگ روش اختیار کرنے اور فرانس اوردیگر مغربی ممالک کی فوجی مداخلت کے ذریعہ وسائل کولوٹنے کے خلاف کارروائی کئی گئی اور فوج کے الگ گروپ فرانس کے اثرات اور اس کے وفاداروں کو کنارے کرکے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ان تینوں ملکوں میں بغاوتوں کے پس پشت عوام کی رضامندی شامل رہی ہے۔ ان ممالک کی غالب اکثریت اس بات کی قائل تھی کہ غیرملکی اورمغربی افواج ان کے وسائل کو لوٹ رہی ہے اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے نام پران کے ملکوں پراپنا قیام طویل اور اقتدار کی گرفت کو مزید مضبوط کررہی ہیں۔
بہرکیف، ان تینوں ملکوںنے اپنے مشترکہ مفادات اور فرانس کے بڑھتے عمل دخل کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کیاہے۔ اس اتحاد کاقیام افریقہ میں ’نشاہ ثانیہ کی آہٹ‘ کہا جارہاہے۔
سب سے پہلے فرانس کے خلاف مالے میں عوامی سطح پر ناراضگی دیکھی گئی بعدازاں برکینافاسو اور اب نائیجر میں عوامی اورفوجی بغاوتوں کا ہونا اس پورے فرانس نائیجر کے سابق وزیر اعظم محمدبازوم کو جمہوری طورپر منتخب وزیراعظم قراردیتا ہے، کی بحالی کامطالبہ کررہاہے۔ محمدبازوم جمہوریت کے نام پر بے اعتدالیاں کرتے رہیں، کیونکہ وہ فرانس کے منظورنظر تھے، لہٰذا ان کی تمام حرکتوں کو نظرانداز کیاجاتارہاتھا مگر اب بازوم کی جگہ ان فوجی کمانڈروں جوان کے ایک قریبی رشتہ دار اور افسربھی ہیں۔ اقتدار پر قابض بازوم حراست میں ہیں۔فرانس اوراس کے حواریوں نے محمدبازوم کی رہائی کا مطالبہ کئی مرتبہ دہرایا ہے اور مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دے دی ہے مگر نائیجیرکے فوجی حکمراں کی کان پرجوں نہیں رینگ رہی ہے،یہ بات غیرمعمولی ہے۔
افریقی ساحل خطے کے 5ممالک میں نائیجیرایک غیر معروف ملک ہے جو کافی وسیع اور عریض ہے اور اس کے وسائل غیرمعمولی ہیں۔ محمدبازوم کے ذریعہ فرانس اور امریکہ اس عظیم ملک کے وسائل پر چھائے ہوئے تھے، دونوں ملکوں کا نائیجیرکے ساتھ دفاعی سمجھوتہ تھا اور وہاں فرانس اور امریکہ دونوں کے فوجی اڈے تھے۔
محمدبازوم کے دور میں نائیجیرمیں مغربی مفادات بہت محفوظ تھے اور اسی وجہ سے مغربی ممالک نے اس ملک پر عنایات اور نوازشوں کی بارش کررکھی تھی۔ یوروپی یونین نے نائیجیرکو پانچ سوملین یورو (یعنی 54ملین ڈالر) کی مددفراہم کردی تھی۔ فرانس نے 2022میں نائیجیرکو 120ملین یورو کی مدد فراہم کی تھی۔ اس طرح امریکہ نے نوازشات کی بارش کرتے ہوئے مارچ2023میں 150ملین ڈالر کی براہ راست معاونت کی تھی۔ مغربی ممالک کے لیے نائیجیربالکل جنت کی طرح تھا۔ اب حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ مالے فرانس کے ہاتھوں سے نکلنے والا پہلا ملک تھا۔ وہاں دو چار سالوں میں دومرتبہ 2020اور 2021میں فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ اسی طرح 2021میں گننی ، برکینافاسو میں 2022اور نائیجیرمیں 2023 میں فوجی تختہ پلٹ ہوا۔ اس خطے میں جتنی تیزی کے ساتھ فوجی تختہ پلٹ کی وارداتیں ہوئی ہیں، وہ اس حساس ترین افریقی خطے کے لیے مسائل پیدا کرنے والی ہیں۔ باربار کے تخت پلٹنے سے بظاہر حالات خراب ہورہے ہیں۔ اس صورت حال کا فائدہ وہ عناصر اور طاقتیں اٹھارہی ہیں جو مغربی ممالک کے خلاف ہیں۔چین اور روس نے فرانس، امریکہ اور دیگر ممالک کے خلاسے فائدہ اٹھانا شروع کردیاہے اور اسے بہت سی شرپسندانہ طاتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS