دہلی فسادات میں مسلمانوں پر عائد دفعہ 436 خارج

0
Image:LiveLaw

نئی دہلی (ایس این بی ) : شمال مشرقی دہلی فساد معاملے میں کڑ کڑ ڈوما کورٹ کے ایڈیشنل جج ونود یاود نے دہلی پولیس کے ذریعہ مقدمات عائد کرنے میں کامن سنس کے استعمال نہ کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور چند مسلم نوجوانوں پر عائد آئی پی سی کی دفعہ 436 کے تحت مقدمہ چلانے کو خارج کردیا ۔ جج اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کی طرف سے مقرر کردہ وکیل ایڈووکیٹ سلیم ملک کی بحث سن رہے تھے جو کہ سیشن کیس نمبر 44/2021 کے تحت محمد شعیب عرف چھوٹوا،شاہ رخ ، راشد عرف راجا، اشرف علی اور محمد طاہر کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کررہے ہیں۔ان سبھی ملزموں پر دہلی پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 436بھی عائد کی تھی ، جس کے تحت مجرم کو عمر قید کی سزا ہو تی ہے اور اس کا مقدمہ سیشن کورٹ میں ہی لڑا جاسکتا ہے۔جج نے نے کہا کہ شکایت کنندہ کے پورے بیا ن میں کوئی بھی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں لکھا ہے کہ فسادیوں نے آگش زنی یا اس کے اسباب والے اسلحے کا استعمال کیاہے ۔ جج نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کی واضح گائیڈ لائن ہے کہ کسی بھی ملزم کے خلاف اسی وقت الزام طے کیا جاسکتا ہے جب کہ مواد، دستاویز اور زبانی بیان پرائما فیسی اس کیس میں اس کے شامل ہو نے کو ظاہر کرتا ہو یا اس سے متعلق کوئی سنگین شبہ ظاہر ہو تاہو ۔ اس معاملے میں چمن پارک میں واقع کپل رکشا بیٹری کی دکان ، شیوم سائیکل اسٹور اور شیوم جنرل اسٹور میں لوٹ مار کا مقدمہ ہے ۔ جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایڈووکیٹ سلیم ملک نے کورٹ میں سوال کیا کہ جائے واقعہ سے کسی بھی طرح کے جلنے کے شواہد نہیں ہیں اور نہ ہی مقدمہ کرنے والوں نے ملزمین کا نام کہیں نامزد کیا ہے ۔ حیرت تو یہ ہے کہ یہ واقعہ24 فروری 2020کو ہوا ، مگر اس سلسلے میں یہ ڈسکلوزر بیان 8اپریل 2020 کو آئی او کے ذریعہ لیا گیا اور اس بنیاد پر ان لوگو ںکو ملزم بنایا گیا ، یہ بیان دینے والے بظاہر پلانٹیڈ گواہ ہیں ، کیوں کہ بیان میں اتنی تاخیر کی کوئی وجہ درج نہیں ہے ، بیان دینے والے پولیس کانسٹبل ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ آخر انھوں نے اتنی تاخیر تک خاموشی کی چادر کیوں اوڑھ رکھی تھی ۔ تمام بیانا ت کے بعد عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ مجسٹریت کی عدالت میں چلے گا اور اس میں دفعہ 436کا اندراج غلط ہے ، اسے فوری طور سے خارج کیا جاتاہے ۔اس فیصلے پرجمعیۃ علماء ہند کے قانونی معاملات کے ذمہ دار ایڈووکیٹ و مولانا نیاز احمد فاروقی نے کہا کہ دہلی پولیس کے رویہ پر عدالتو ںنے لگاتار سوالات اٹھائے ہیں اور سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہند نے بھی دہلی ہائی کورٹ میں سوالات قائم کیے ہیں، اصل معاملہ ’ ارادہ‘ کا ہے ،اب یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ کیا تحقیقاتی ایجنسیوں کا کام فسادیوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے یا پھر بے قصوروں پر بڑے بڑے مقدمات عائد کرکے اصل مجرموں کو بے نقاب ہو نے سے بچانا ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS