بینکوں کی نجکاری

0
Image:IncMagazine

معاشی سست روی کاتمام ملبہ کورونا بحران پر ڈال کر حکومت ایسے ایسے فیصلے کررہی ہے جس کے مضمرات کی بابت ماہرین معیشت ہمیشہ ہی متنبہ کرتے آئے ہیں۔ ان ہی فیصلوں میں سے ایک پبلک سیکٹر کے بینکوں کی نجکاری کا فیصلہ بھی ہے۔اس سلسلے میںحکومت رواں سرمائی اجلاس کے دوران ہی بل بھی پیش کرنے والی ہے اور ایوان کی منظوری کے بعد باقاعدہ اسے قانونی شکل دے کر تمام سرکاری بینکوں کو نجی ہاتھوں میں سونپ دیا جائے گا۔ حکومت اس فیصلہ کی جو وجوہات بتارہی ہے، وہ بظاہر قابل قبول نہیں ہیں خاص کر بینکوں سے وابستہ تمام متعلقین حکومت کے اس فیصلہ کی مخالفت کررہے ہیں۔ آج سے شروع ہوئی بینک ملازمین کی دو روزہ ہڑتال بھی اسی مخالفت کا اظہار ہے۔ ملک گیر پیمانہ پر ہونے والی اس ہڑتال میں تقریباً 10لاکھ بینک ملازمین شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بینکوں کی نجکاری کا فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ عوام کی دولت سرمایہ داروں کے حوالے کیے جانے کیلئے کیا گیا ہے۔ معیشت پراس کے انتہائی برے اثرات تو مرتب ہوں گے ہی ساتھ ہی غریب عوام کو بینکنگ خدمات سے محرومی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بینکوں کی نجکاری ایک ایسا فیصلہ ہے جس کا اثر پوری ملکی آبادی پر پڑے گا۔مختلف سرکاری بینکوں کو ایک دوسرے میں ضم کردیے جانے کے بعد بھی ملک بھر میں تقریباً 12 نیشنلائزڈبینک ہیں جن میں75کروڑ سے زائد افراد کے اکائونٹس ہیں اور ان 12 بینکوں میں تقریباً13لاکھ افراد کام کرتے ہیں۔
75 کروڑ کی تعداد ملک کی نصف آبادی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اوران کاصرف بینک سے براہ راست تعلق ہی نہیں ہے بلکہ قانون کی زبان میں یہ بینک کے ’اسٹیک ہولڈر س‘ بھی ہیں کیوں کہ ان کی گاڑھی کمائی کا پیسہ ان بینکوں میں جمع ہے۔ بینکوں کی نجکاری کا فیصلہ کیے جانے سے قبل ان تمام اسٹیک ہولڈرس کی رائے لینا بھی ضروری تھا لیکن حکومت ایسا کیے بغیر پوری بینکنگ صنعت کو نجی ہاتھوں میں سونپ دیناچاہتی ہے۔
حکومت کے اس فیصلہ کا سب سے بڑا فائدہ ملکی اور غیر ملکی نجی سرمایہ کو پہنچے گا اور بینکوں کے مالکان گھر بیٹھے ہی 75کروڑ افراد کی آمدنی اور زندگی بھر کی جمع رقم پر قابض ہوجائیں گے۔ ایک اندازہ کے مطابق 1.56 لاکھ کروڑ روپے کے بینک ڈپازٹس یعنی ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 75 فیصدحصہ نجی ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ صنعتی اور تجارتی کارپوریشن بھی اپنا من چاہا مطلوبہ سرمایہ عوام کی اسی کمائی سے آسانی سے حاصل کرلیں گے۔ سرکاری بینکوں کو اپنے یہاں جمع لوگوں کی پونجی استعمال کرنے میں اپنی سماجی ذمہ داری بھی ادا کرنی پڑتی ہے لیکن نجی ہاتھ اس حوالے سے بالکل ہی آزاد ہوں گے۔ بینکنگ کے موجودہ ڈھانچہ میں سماجی فلاح و بہبود کے تقریباً 95فیصد منصوبو ںکے نفاذ کی ذمہ داری سرکاری بینکوں کی ہوتی ہے۔لیکن نجی ہاتھوں میں چلے جانے کے بعد فلاحی منصوبوں کے نفاذ کی قیمت بھی وصول کی جائے گی کیوں کہ بلامعاوضہ کوئی بھی کام کرنا پرائیویٹ سیکٹر کے منشور میں شامل ہی نہیں ہے۔ نجی سرمایہ کاروں کا واحد مقصد منافع اور بھاری بھر کم منافع حاصل کرنا ہوتا ہے اوراس کیلئے انہیں بڑے ڈپازیٹرس کی ایک چھوٹی تعداد چاہیے ہوتی ہے ،جن پر لاگت بھی کم آتی ہے، اس کے برخلاف عام آدمی چھوٹا ڈپازیٹر ہوتا ہے اور اس کی بڑی تعدادلاگت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ نجی ہاتھ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی لاگت بڑھے،اس طرح دھیرے دھیرے عام آدمی کو بن کہے بینکنگ خدمات سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری بینک حکومت کے پاس ہونے کی وجہ سے ڈپازیٹرس اپنی رقم کی حفاظت کے سلسلے میں مطمئن رہتے ہیں اور و ہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پوری رقم حکومت واپس کرے گی۔ اب جیسے جیسے حکومت بینکوں کی نجکاری کی طرف بڑھ رہی ہے عام ڈپازیٹرس کی تشویش میں بھی اضافہ ہورہاہے اور عوام کی محنت کی کمائی کی حفاظت بھی غیر یقینی ہوتی جارہی ہے۔کیوں کہ ایک کے بعد ایک پرائیویٹ بینک اب تک دیوالیہ ہوچکے ہیں اوراس کے اکائونٹ ہولڈرس کی رقم ڈوب گئی۔ہر چند کہ حکومت نے 5لاکھ روپے تک کی واپسی کی ضمانت کا قانو ن بنایا ہے لیکن سرکاری بینکوں میں پوری رقم پر حفاظت کی ضمانت کے برخلاف محض5لاکھ روپے تک کی واپسی کے تیقن پر اپنی پوری دولت نجی ہاتھوں میں سونپ دینا عام اکائونٹ ہولڈرس اور ڈپازیٹر کیلئے سنگین تشویش کا سبب بنا ہوا ہے۔یہ وہ خدشات ہیں جنہیں بے بنیاد نہیں کہاجاسکتا ہے اور ان خدشات کا ازالہ کیے بغیر نجکاری کافیصلہ بھی نہیں کیا جاناچاہیے۔
زرعی قوانین کی طرح ہی بینکوں کی نجکاری کو بھی حکومت منافع کا سودا بتارہی ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے زرعی قوانین کی طرح اس معاملے میں بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے بہتر ہوگا کہ تمام اسٹیک ہولڈرس کی مشاورت کے بعد ہی اس سلسلے میں اقدامات کیے جائیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS