ثناخوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

0

رتو سارسوت
(مترجم:محمد صغیرحسین)

دنیا کے تمام بڑے ملکوں کے لیڈران معاشی کسادبازاری کی بات کررہے ہیں۔ ملک کا ہر طبقہ اس کی زد پر ہے اور دنیا بھر کی حکومتیں اپنے شہریوں کو اس سے نجات دلانے میں امداد بھی کررہی ہیں۔ معاشی طور پر پسماندہ حلقوں کے لیے مالی امداد سے لے کر راشن تک فراہم کرانے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن ہندوستان میں ہی نہیں، دنیا کے مختلف ملکوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کے تئیں کسی کو ذرّہ برابر بھی ہمدردی نہیں ہے۔
اس طبقہ کی سب سے بڑی تکلیف یہ ہے کہ اس کے پاس اپنی شناخت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حقوق انسانی کی باتیں کرنے والے بھی ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔ لیکن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے اُن کے درد کو سمجھا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی ہے کہ شناختی کارڈوں کے بغیر جسم فروشوں کو ماہانہ خشک راشن اور نقدی تقسیم کی جائے۔ عدالت نے یہ حکم عوامی مفاد سے متعلق ایک عرضداشت پر صادر کیا جس میں عالمی وبا کی وجہ سے جسم فروشوں کو ہورہی پریشانیوں کو اجاگر کیا گیا تھا۔
آندھراپردیش، کرناٹک، مہاراشٹر، تامل ناڈو اور تلنگانہ میں ایک لاکھ بیس ہزار جسم فروشوں کے درمیان لیے گئے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے اِن میں سے 96فیصد اپنی آمدن کا ذریعہ کھوچکی ہیں۔ بڑی تعداد میں جسم فروشوں کو آدھار اور راشن کارڈ جیسے شناختی کارڈوں کے نہ ہونے کے سبب راحت کے کاموں سے باہر رکھا گیا ہے۔ انہیں شناختی دستاویزات فراہم کرانا ریاستی سرکاروں کی ذمہ داری ہے۔ یہ کوتاہی اُس حکم کی خلاف ورزی ہے جو عدالت عظمیٰ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو پہلے دیا تھا۔
جسم فروشوں کی بازآبادکاری اور انہیں بااختیار بنائے جانے کی جانچ کرتے ہوئے عدالت نے 2011میں تشکیل شدہ ایک پینل کی سفارشوں کی بنیاد پر حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ جسم فروشوں کو راشن کارڈ، ووٹنگ آئی کارڈ اور بینک کھاتوں تک اُن کی رسائی کو یقینی بنائیں۔ حکومت ہند کی وزارت صحت و خاندانی فلاح و بہبود کے قومی تنظیم برائے ایڈزکنٹرول کا اندازہ ہے کہ ملک میں کم وبیش 9لاکھ سے زیادہ جسم فروش ہیں۔
اس پیشے سے متعلق زیادہ تر عورتیں وہ ہیں جنہیں سماج کے ناموافق حالات نے اس دلدل میں دھکیلا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اُن کے درد کو سمجھنے کے بجائے ہم انہیں ہی خطاوار مانتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس پیشے کو اس قدر نفرت سے دیکھا جاتا ہے، اسے ختم کرنے کی کوششیں صفر ہیں کیوں کہ اس میں جسم فروش عورتوں سے کہیں زیادہ وابستگی اُن لوگوں کی ہے جو انسانوں کی اسمگلنگ کے ذمہ دار ہیں۔
جسم فروشی کا جال اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہے کہ اصل گنہگار جو انسانوں کی اسمگلنگ کے ذریعہ عورتوں کو اس دوزخ میں دھکیل دیتے ہیں۔ وہ خود تو آزاد فضا میں سانسیں لیتے ہیں لیکن جسم فروش جہنمی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ذلت، بے آبروئی اور نفرت کے بیچ اُن کی زندگی، راہ ِنجات کی متلاشی ہونے کے باوجود گرفتار بلارہتی ہے۔ یہ عورتیں عام عورتوں کی طرح اپنے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کرپاتیں کیوں کہ اُن کے اندر یہ خوف ہمیشہ گھر کیے رہتا ہے کہ اُن کی شناخت ظاہر نہ ہو۔ کیا سماج کی اخلاقی قدروں کا کھلا مذاق جسم فروشی کے کاروبار کے پھلنے پھولنے سے نہیں ہوتا؟
ہندوستان میں نہیں، دنیا کے تمام ملکوں میں جسم فروشوں کے تئیں تنگ ذہنی رچی بسی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ اور امریکہ جیسے ملک بھی اِن کے حقوق کے تحفظ کے تئیں مایوس کن رویہ رکھتے ہیں۔ امریکہ نے مالی طور پر پسماندہ لوگوں کے لیے مدد کی پیش کش کی ہے جس میں وہ لوگ قرض لے سکتے ہیں جو چھوٹے موٹے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں پر اس میں وہ طبقہ شامل نہیں ہے جو بازارِ ملامت سے وابستہ ہے۔ ھف پوسٹ کے مطابق امریکی حکومت جسم فروشی سے ہم رشتہ کسی بھی شخص کو کوئی قرض نہیں دے گی۔
برطانیہ میں طبقۂ جسم فروشاں نے حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ کیا کیوں کہ ایسی زیادہ تر عورتیں مائیں بھی ہیں اور معاشی کسادبازاری کے اس دور میں سوال صرف اُن کی زندگی کا ہی نہیں، اُن کے بچو ںکی زندگی کا بھی ہے۔ لندن میں english collective of prostitutesنے ہزاروں جسم فروشوں کو ملازمین کی طرح فائدہ دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں، اُن کی مدد کون کرے گا۔
کاروبار عصمت کے مسائل دنیا بھر میں ایک جیسے ہیں۔ بنگلہ دیش میں یوں تو اس پیشے کو قانونی جواز حاصل ہے، پر وہاں بھی اُن کے حالات ابتر ہیں۔ دی گارڈین میں گزشتہ دنوں شائع شدہ ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بنگلہ دیش میں ایک لاکھ سے زیادہ عورتیں بے گھر ہوگئی ہیں اور فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ وہاں کی حکومت نے اِن کے لیے منصوبے بنائے ہیں، لیکن حقیقت واقعی یہ ہے کہ وہ امداد اِن عورتوں تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عورتیں ہماری دنیا کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا کاروبار عصمت میں انہیں زبردستی دھکیل دیے جانے کے بعد، اُن کا انسانی حق چھین لیا جانا ہی مہذب معاشرے کا لازوال حق ہے؟
2010میں جسم فروشوں کی حالت سدھارنے سے متعلق ایک عرضداشت پر شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے انسداد غیراخلاقی قحبہ گری ایکٹ 1976 میں ترمیم کی سفارشات دینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ جسم فروشاں، ہندوستان کے دستوراساسی کے آرٹیکل 21کے مشمولات کے تحت عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ عزت کے ساتھ زندہ رہنا تو دور، جسم فروش عورتیں اپنی روزمرہ جدوجہد کو ہی تقدیر مان چکی ہیں۔
لیکن ان مایوس کن حالات میں راحت کی بات یہ ہے کہ ممبئی کے کماٹھی پورا علاقے میں رہنے والی جسم فروشوں کی بدتر صورت حال کو نہ صرف سمجھا گیا بلکہ انسانی ہمدردی کے زاویۂ نظر سے دیکھتے ہوئے ترقی خواتین و اطفال کے اہلکار نے جولائی میں ایک مکتوب لکھ کر کہا کہ ان عورتوں کو کووڈ-19کے دوران ضروری خدمات مہیا کرائی جائیں۔ مکتوب میں یہ بھی تحریر تھا کہ تالہ بندی کی وجہ سے انہیں کام بھی نہیں مل رہا ہے، جس سے اُن کے اور اُن کے کنبے والوں کے سامنے فاقہ کشی کی حالت پیدا ہوگئی ہے۔ اُن کے لیے زندہ رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ مکتوب اپنی نوعیت کے مطابق اس لیے منفرد ہے کہ شاید پہلی بار کسی نے اُن کے کاموں کو تسلیم کیا ہے اور اُن کے تئیں ہمدردی کا جذبہ رکھا ہے۔
حیران کن بات ہے کہ ایک موقر مطالعے میں یہ تو محسوس کیا گیا کہ کل ہند پیمانے پر لاک ڈاؤن کے بعد بھی اگر ریڈلائٹ ایریا کو بند رکھا جاتا ہے تو ہندوستانیوں کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا کم خطرہ رہے گا، لیکن کسی بھی تنظیم نے اس پہلو پر غورنہیں کیا کہ ان کاروبار سے وابستہ عورتیں اپنی زندگی کس طرح گزاریں گی؟
کاروبارِ عصمت ایک سماجی مرض ہے جس کے لیے جسم فروش عورتوں کو ہی موردالزام قرار دیا جاتا ہے۔ یہ پوری طرح نامناسب ہے۔ یہ خرید و فروخت کا وہ عمل ہے جس میں مردوں کی بھی یکساں شرکت ہوتی ہے۔ تو پھر یہ نفرت صرف عورتوں کے حصے میں ہی کیوں؟ اگر سماجی بندوبست ہر ایک کو روزی روٹی کمانے کے ذرائع مہیا کرانے میں کامیاب ہوتو عورتیں اپنے جسم کا کاروبار کیوں کریں گی۔ لیکن سماج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ تمام مسئلوں کا ذمہ دار اُسے ٹھہراتا ہے جو سب سے کمزور ہو اور کمزور کی مجبوری یہ ہے کہ وہ چاہ کر بھی ردّعمل نہیں کرپاتا کیوں کہ پدرسری سماج اُس سے اُس کی حیات کا حق بھی چھین سکتا ہے۔ انسانی ہمدردی سے معمور ہر حکومت کا اوّلین فریضہ ہے کہ وہ سماج میں سب سے زیادہ مطعون و مردود کو پناہ دے اور انہیں باوقار زندگی کی راہ پر لوٹنے کی راہ متعین کرے۔
(بشکریہ: جن ستّا)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS